دوسری قسط

"بات تو اچھی ہے لیکن میرے دل میں اور ہی بات تھی" عبداللہ صاحب کی بجائے جواب فاطمہ  بیگم کی طرف سے آیا تھا، خدیجہ بیگم سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھے گئ،
"بات یہ ہے آپا کے مجھے اپنی ذوالعرش کے لئے اذان بہت پسند ہے، ہمارا عارفین تو لاکھوں میں ایک ہے اس میں کوئ شک نہیں اپنا ہی بچا ہے بس آپ کو دل کی بات بتانا ضروری تھی" خدیجہ بیگم جو ان کے ہاں کی منتظر تھی اذان کا نام سن کر تھوڑی مایوس ہوئ. ان کا چہرہ دیکھ کر فاطمہ بیگم نے پھر کہا، "آپ کو برا لگا ہو تو معذرت آپا" ان کی بات پر خدیجہ بیگم نے اپنے آپ کرمو سمبھال کر مسکرا دیا، " ارے نہیں فاطمہ ذوالعرش آپ کی بیٹی ہے ماں ک حق تو بنتا ہے کہ وہ اپنی پسند ظاہر کرے، اذان بھی میرے بیٹے جیسا ہے مجھے برا نہیں لگا" ان کی بات پر فاطمہ بیگم کو مسکرا کر خاموش ہوئ ان دونوں کے درمیان عبداللہ صاحب جو اب تک خاموش تھے خدیجہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، " میری بات مانو تو عارفین کے لئے سحر کے بارے میں سوچ سکتی ہو، ماشاءاللہ سے بہت ہی سلجھی ہوئ لڑکی ہے تم نے تو بچپن سے دیکھا ہوا ہے اسے" عبداللہ صاحب کی بات پر خدیجہ بیگم فوراً بولی، "ارے ہاں ہماری سحر بیٹی بھی تو ہے میرے ذہن میں یہ بات نہیں آئ، اللّٰہ کے فضل سے بیٹا بہت ہی اچھا ہے میری بات کا انکار نہیں کریگا اور انکار کی وجہ بھی نہیں بنتی سحر تو ہے ہی پیاری"
" تو پھر طے رہا ذوالعرش کا رشتہ اذان سے اور عارفین کا سحر سے طے کر دیتے ہیں" ان کی بات پر مسکراتے ہوئے دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا.
                    ...….....…..............

کمرے میں نیم تاریک اندھیرا تھا لیکن اس کمرے کے اندھیرے سے زیادہ وہ اپنے دل میں موجود روشنی کے بوجھ جانے سے بے چین تھا وہ کھڑی کے پاس اپنی سوچوں میں گم کھڑا مسلسل باہر دیکھ رہا تھا. آج گھر کے بڑوں کی کہی گئی بات نے اسے پریشان کر دیا تھا. سحر اچھی لڑکی تھی لیکن کبھی عارفین نے اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا اس کی خاص وجہ تو یہی تھی کہ اس نے کبھی ذوالعرش کے علاوہ کسی کو سوچا ہی نہیں تھا. وہ نہیں جانتا تھا کہ ذوالعرش بھی اسے پسند کرتی ہے یہ نہیں لیکن اس کے دل میں بس اسی کا خیال ہمیشہ سے تھا.
"یہ کیسی کشمکش ہے ایک طرف میرے دل کی آرزو اور دوسری طرف تیری رضا" اس کی آنکھوں میں ذوالعرش کا چہرہ نمایاں ہوا.. اس نے اپنی آنکھیں بند کردیں.
اس کے لبوں پر اب کوئ بات نہ آئ بس خاموش فضا کو اب وہ آنکھ بند کرکے محسوس کررہا تھا.
                  .............................

وہ چلتا ہوا ذوالعرش کے کمرے تک آیا. مسکراتے ہوئے دروازے پر دستک دیں وہ جو اندر اپنے ابا کے فیصلے کے بارے میں سوچ رہی تھی دستک پر بری طرح چوکی. "ہاں آجاؤ" اس نے بنا پلٹے ہی زور سے پکارا. اس کی آواز پر دروازہ پرے ڈھکیل کر اندر آتا ہوا وہ اذان تھا.
"ذوالعرش" اس نے پکارا تو ذوالعرش اس کی آواز سن کر فوراً پلٹی. روز اس کا سامنا ہوتا تھا لیکن ابا کے فیصلے کے بعد اس کا سامنا کرنا اس کے لئے مشکل ہورہا تھا. وہ بنا کچھ کہے بس اسے دیکھے جارہا تھا اس کی ان نظروں کو اپنے اوپر پاتے ہوئے ذوالعرش نے نظریں نیچے کرلیں اور اٹھ کھڑی ہوئ.
" میں بس ایک بات کہنے آیا تھا" وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا. ذوالعرش کو اس کا اس طرح بے تکلف ہونا نا جانے کیوں اچھا نہیں لگا. شاید ابا کے فیصلے کی بات اب تک ذہن میں گردش کررہی تھی اس لئے اس نے اپنے آپ کو تسلی دیں.
"تایا ابو کے فیصلے سے میں بہت خوش ہوں ذوالعرش اس کی وجہ بس یہی ہے کہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور نکاح بھی کرنا چاہتا تھا تو دیکھو اللّٰہ نے میری آرزو پوری کردی اور تمھیں میری زندگی میں شامل کردیا" اس کی آخری بات پر ذوالعرش نے اس کی جانب دیکھا جس کے لبوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرا رہی تھی اذان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ واقعی بہت خوش ہے.
"اور تم دیکھنا ہم ساتھ ساتھ بہت خوش رہے گے یہ میرا وعدہ ہے تم سے" اس کی بات پر ذوالعرش کے چہرے پر مسکراہٹ آئ لیکن دل کی کیفیت وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ خوش ہے یا نا خوش.
اپنی بار کہہ کر اذان کمرے سے چلا گیا ذوالعرش پھر بیڈ پر بیٹھ گئ." کتنی عجیب بات ہے اذان نے اپنی پسند کا اقرار کیا لیکن مجھ سے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا میں خوش ہوں یا نہیں." اس کے دل میں کسی کا خیال تھا بھی یا نہیں اس نے کبھی اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا تھا
"اور عارفین" اس کے لبوں پر اس کا نام آتے ہی ذوالعرش چونکی،

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟" ذوالعرش کھولے بال ہاتھوں میں چوڑیوں کا سیٹ نیلے سوٹ میں کافی خوبصورت لگ رہی تھی اس نے عارفین سے پوچھا جو کتنے وقت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا.
"ہر سوال کا جواب زبان سے نہیں دیا جاتا مس صدیقی" اس نے مسکراتے ہوئے اس کے گال کو چھوا  اور ذوالعرش جو اس کی بات کو نا سمجھ پائ تھی منہ ٹیڑہ کئے دوسری جانب دیکھنے لگی اس کی اس حرکت پر عارفین نے زور سے قہقہہ لگایا اور اسے دیکھ وہ بھی ہس دی.
"عارفین کا خیال اس وقت" اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو مسلا وہ اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھیں. رات کے کپڑے ہاتھ میں لئے واش روم میں چلی گئ.
                   ............................

سب بڑے خوش تھے کہ گھر کے چاروں بچوں میں رشتہ جوڑ کر .بس چاروں ہی تھے جو اب تک نا کچھ سمجھ پائے تھے نا ہی ایک دوسرے سے بات کرتے تھے. ذوالعرش نے جب سحر سے عارفین کے بارے میں پوچھا تو اس نے بس یہی کہا، " جیسی بڑوں کی مرضی" اس کی بات پر ذوالعرش نے پھر کبھی اس بارے میں بات نہیں کی. عارفین اس دن کے بعد سے صدیقی ہاؤس میں نہیں آتا تھا عبداللہ صاحب نے اس بارے میں کہا تو " ارے اب رشتہ جوڑ گیا ہے بس اسی لئے نہیں آتا" ان کی بات پر خدیجہ بیگم نے ہستے ہوئے کہا، یوں تو اب تک زندگی کا معمول سکون سے گزر رہا تھا لیکن کسے پتا تھا کہ اب سے عارفین، ذوالعرش، سحر اور اذان کی زندگی کروٹ لینے والی تھی.
    اذان نے بزنس میں بہت فائدہ کرایا تھا جس سے عبداللہ صاحب نے خوش ہوکر اسے شہر کے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ کاروبار میں اور ترقی ہو. اذان کی اس کامیابی پر سب خوش تھے. عارفین جس کمپنی میں جوب کرتا تھا انھوں نے اسے بھی ٹریننگ کے لئے شہر سے دور بھیجا جہاں وہ اپنے کلیگ کے ساتھ رہنے لگا. سحر تو یوں بھی اپنے کورس میں مصروف تھی صبح جاتی شام کو آتی اور رات کا کھانا بنانے میں فاطمہ بیگم کج مدد کرتی. بس ایک ذوالعرش تھی جس نے اپنی زندگی کا معمول پوری طرح سے بدل لیا تھا. کالج میں ایڈمیشن کے بعد جب اس کا پہلا دن تھا وہ سمپل سا ڈریس پہنے سر پر سکارف باندھے بہت خوشی خوشی گئ نئے نئے دوست بنائے اور زندگی کو نئے انداز میں جینے لگی....چھ مہینے تو یوں ہی گزر گئے
                     ...............…...........

"بہت بور ہورہا ہے یار چلو نا موی کے لئے چلتے ہیں" صبا نے بیزار ہوتے ہوئے ذوالعرش سے کہا، وہ سب دوستوں کا گروپ کالج کے کانٹین میں بیٹھا تھا. کچھ لڑکیاں اور کچھ لڑکے.
"ہاں چلو چلتے ہے ویسے بھی بریک کے بعد لیکچر بھی سب بور ہی ہے اس سے اچھا موی انجوائے کریگے. ذوالعرش کالا ڈریس پہنے بالوں میں کلپ لگا ہوا ہونٹوں پر لپ گلو اسکارف بیگ پر رکھا ہوا تھا پیر ہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی. باقی سب دوستوں نے بھی ذوالعرش کی بات پر ہاں میں ہاں ملائی. سب اٹھ کر کالج سے باہر آگئے ذوالعرش بھی اسی طرح سر پر دوپٹا لئے سب کے ساتھ کھڑی تھی اسکارف پہننا جیسے وہ بھول ہی گئ تھی. سب نے اپنی اپنی مرضی بتائ پھر ایک موی کا نام ڈیسائڈ کیا اور پورا گروپ ایک ساتھ رستے پر چلنے لگا.
ذوالعرش کے لئے اب یہ بات بہت عام ہوگئ تھی دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، لیکچر بنک کرکے موی کے لئے جانا اسے لگ رہا تھا وہ بس اپنی لائف انجوائے کر رہی تھی لیکن اسے یہ پتا چل جاتا کہ وہ اپنے اللّٰہ سے دور ہورہی ہے تو یہ کبھی نا کرتی. بعض دفعہ ہم "اللّٰہ نے ہی موقعہ دیا ہے" یہ بات کہہ کر اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں اپنی ضمیر کی آواز کو سننا بند کر دیتے ہے. ہمارا ارادہ آسمان میں اڑنا ہوت ہے لیکن یم اور بھی زمین کی جانب جھکتے جاتے ہے اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں.
                  .............................

ذوالعرش جب کالج سے واپس آئ تو دروازہ بند کرتے ہی پلٹی تو وہی روک گئ سامنے ہال میں اذان صوفے پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا اسے آتے دیکھ مسکرا کر اخبار ایک سائیڈ پر رکھ کر کھڑا ہوگیا.
"زہنصیب، کب سے آپ کے انتظار میں بیٹھے ہے اور ایک آپ ہے کہ ہماری خبر تک نہیں لیتے" وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا. ذوالعرش اسے بہت دنوں بعد دیکھ رہی تھی اذان اب زیادہ مصروف رہنے لگا تھا اس لئے ان ملاقات نا ہونے کے برابر تھی. ذوالعرش کو اس سے تو کوئ فرق نہیں پڑا لیکن اذان اس کو دیکھ کر کافی خوش ہوا.
"ہاں وہ بس کالج میں دیر ہوگئی تھی، کیسے ہو تم؟" اس کے اس سوال پر اذان کا چہرہ پھر کھل اٹھا،
"بس دیکھ لو کیس ہوں" اس نے ہستے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ بھی بس مسکرا کر اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئ.
" کیسی چل رہی ہے تمھاری سٹڈیز؟"
"بہت اچھی" ذوالعرش کے جواب پر جو اذان مسکرا رہ تھا نا جانے کیوں اسے اوپر سے نیچے دیکھنے لگا، ذوالعرش کو تھوڑا عجیب لگا اس لئے وہ کھڑی ہوگئ اور اسی کے ساتھ اذان بھی کھڑا ہوگیا وہ جانے کے لئے پلٹی تو اذان نے اسے پھر مخاطب کیا.
" ذوالعرش ویسے مجھے کہنا تو نہیں چاہئیے لیکن تم بدلی بدلی سی لگ رہی ہو" اذان کی اس بات پر اس کے ماتھے پر شکنے آگئ.
"کیوں کیا بدلاؤ آیا ہے مجھ میں" اس کی اب عادت ہوگئ تھی کوئ بھی اسے اس کے بدلے ہوئے رہن سہن پر ٹوکتا وہ چڑ جاتی فاطمہ بیگم اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئ تھی اور ذوالعرش جواب میں بس یہی کہتی، " میں بس لائف انجوائے کررہی ہوں" اب کی بار بھی اس نے یہی جواب دیا تیز نظروں سے اذان کو گھورتی ہوئ اپنے کمرے میں چلی گئ. اذان وہی کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا. "یہ ایسی تو نہیں تھی" اس نے پریشان ہوکر سوچا.

کمرے میں آکر اس نے بیگ زور سے بیڈ پر پٹکا. اور اپنی ئرینگس اتارنے لگی. "کیوں سب مجھے ٹوکنے لگے ہے اپنی مرضی سے جینا بری بات ہے کیا اف میرے گھر والے اور اب یہ اذان بھی" غصے میں بڑبڑاتے ہوئے وہ چیزے رکھنے لگی.
                 .............................

اذان نے دروازے پر دستک دی تو سحر نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا اور مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کو کہا،
"یہ ذوالعرش کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟" اس کے سوال پر سحر نے ایک نظر اذان کو دیکھا جس کے چہرے کے تاثر بدلے ہوئے تھے،
"کیوں کیا ہوا؟" سحر نے اتنے ہی سکون سے اس سے سوال کیا،
" بہت بدلی ہوئ لگ رہی ہے وہ سحر پتا نہیں اسے دیکھ کر میرے دل کو وہ محسوس نہیں ہوا جو ہمیشہ سے اس کی ایک جھلک پر ہوتا تھا، یا پھر اس نے اپنے آپ کو بدل دیا ہے، میں شہر سے فون کرتا ہوں تو اس نے کبھی بھی مجھ سے بات نہیں کی نا ہی کبھی اس نے خود سے کال کی"
"تم کچھ زیادہ سوچ رہے ہو اذان، وہ ویسی ہی ہے ہاں بس نئے دوست وغیرہ بنے ہے نا اس کے تو،
کچھ وقت کے لئے انسان نئے ماحول نئے لوگوں کے ساتھ رہنے کی غرض سے اپنا رہن سہن بدل لیتا ہے اس میں فکر کی کوئ بات نہیں وہ کافی سمجھدار ہے سمجھ جائے گی." سحر نے سمجھاتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا،
اس کی بات پر اذان نے مسکرا کر سحر کے ہاتھ ہر مکا مارا، " خیر اس کا تو پتا نہیں لیکن تم تو بہت ہی سمجھدار ہوگئ ہو"
" ہاں تھوڑی بہت" سحر نے ہستے ہوئے کہا،
"میری پیاری سی بہنا تم فکر مت کرو میں سب اچھا برا سمجھتی ہوں" ذوالعرش نے ہستے ہوئے سحر کے گال چھوئے، سحر نے کچھ دن پہلے ہی  اسے جب سمجھایا کہ عبایا پہنا کرو اس طرح رہنا سہی نہیں لیکن ذوالعرش نے اس کی باتوں کو ہستے ہوئے ٹال دیا.
اذان اب جاچکا تھا لیکن سحر کے چہرے پر فکر اب بھی تھی اس نے اذان کو سمجھا تو دیا تھا لیکن وہ خود بھی ذوالعرش کے لئے فکرمند تھی.
                    .........…................

"امی پلیز نا" ذوالعرش اپنی ایک دوست کے بھائ کی شادی میں جانے کی اجازت کے لئے فاطمہ بیگم کے پاس کیچن میں کھڑی تھی. عبداللہ صاحب یوں بھی یہ دنوں شہر سے باہر تھے اور یہ موقع ذوالعرش کے لئے بہت ہی فائدے مند ثابت ہوا تھا کیونکہ اگر عبداللہ صاحب ہوتے تو اسے ان سے اجازت لینی پڑتی جس کی اس میں ہمت نہیں تھی.
" نہیں کہا نا ایک بار" فاطمہ بیگم اب اس کی بار بار باہر جانے سے غصہ ہوچکی تھی اور شام کا پروگرام سن کر تو انھوں نے ایک جھٹکے میں انکار کردیا.
"ارے امی میں جلدی آجاؤ گی زیادہ وقت نہیں لگے گا اگر میں نہیں گئ تو میری دوست کو برا لگے گا نا مان جائے نا اب" وہ اب ڈرامے کرنے لگی تھی.
" ٹھیک ہے پھر سحر کو ساتھ لے جاؤ" امی کی اس بات پر وہ تپ کر بولی، " امی میری دوست کے یہاں پروگرام ہے وہاں سحر کا کیا کام وہ کسی کو جانتی بھی نہیں ہے" ذوالعرش نے اب ٹھان لیا تھا کہ ماں کو اب مانا کر ہی دم لیں گی. پورے ایک گھنٹے بعد فاطمہ بیگم مان گئ. بس اسی شرط پہ کہ ڈرائیور بھی ساتھ جائے گا اور وہ ہی واپس گھر چھوڑے گا. ماں کی اس بات پر ذوالعرش فوراً مان گئ. ماں پر خوشی خوشی ڈھیر سارا پیار لٹاتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں تیاری کرنے چلی گئ.
سحر فاطمہ بیگم کی مدد کے لئے کچن میں آئ،
"اذان کہا پر ہیں سحر" کام کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا، " جی تایا امی وہ اپنے دوست کی طرف گیا ہے، اس کی کزن کی شادی میں انوائیٹیڈ تھا نا اس لئے رات میں دیر سے آئے گا. سحر کی بات پر فاطمہ بیگم نے بس مسکرا کر ہممم کہا.

    بہت محنت کرکے ایک ڈریس سلیکٹ کیا، جامنی رنگ کا کندنوں سے بھرا ہوا سوٹ، دوپٹے پر بھی ورک کیا ہوا، ہونٹوں پر لپسٹک کانوں میں بڑے جھمکے، میچ کی ہوئ چوڑیاں بالوں میں کلپ لگا کر آدھے بال پیچھے کھولے چھوڑے ہوئے تھے ہیلس پہنے ہوئے جب وہ آئینے کے سامنے آئ تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر مسکرانے لگی. وقف کافی ہوچکا تھا وہ جلدی جلدی باہر آئ کار میں ڈرائیور پہلے سے موجود تھا اسے پتا بتا کر وہ بھی بیک سیٹ پر بیٹھ گئ.
پروگرام والی جگہ پر جب وہ پہنچی تو اس کی دوست سامنے ہی موجود تھی وہ اپنا ڈریس سنبھالتے ہوئے ہیلس کی ٹک ٹک کرتی چلی آرہی تھی وہاں موجود ہر شخص کی نظر ذوالعرش پر یہ تھی وہ جامنی رنگ میں اپنی خوبصورتی کا ایک نمونہ تھی. دوست سے مل کر وہ سٹیج پر کپل کو مبارک باد دی اور نیچے اپنے کالج گروپ کے پاس آکر کھڑی ہوگئ. اس کے کافی دوری پر اذان کھڑ تھا اس کے دوست کی کزن کی وہ شادی تھی جس میں وہ شامل تھا لیکن ذوالعرش اور اذان دونوں ہی ایک دوسرے کی موجودگی سے لاعلم تھے.
ذوالعرش اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی وہاں پر موجود کچھ لڑکے اسے ہی دیکھ رہے تھے ایک نے معنی خیز انداز میں اشارہ کیا تو دوسرا لڑکا ہاتھ میں کولڈرنک کا گلاس لئے ذوالعرش کی جانب بڑھا اور اس کے کپڑوں پر کولڈرنک گرا دی ذوالعرش جو اسبات کے لئے تیار نہیں تھی کولڈرنک گرنے پر چونکی، " اوہ ریلی سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا، غلطی سے گر گیا آپ پلیز معاف کردیں مجھے" وہ لڑکا فکر سے کہہ رہا تھا. اور دور کھڑے اس کے دوست ہستے ہوئے ایک دوسرے کو ٹالی مارنے لگے.
" کوئ بات نہیں" جہاں سب دوستوں کو ڈر تھ اکہ وہ غصہ کریں گی لیکن موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ذوالعرش نے سمبھل کر جواب دیا. سب نے اسے واش روم کا پتا بتایا تو وہ ایک سمت جانے لگی اور وہی لڑکا اس کے پیچھے چل پڑا. ذوالعرش کو جاتے ہوئے اذان نے دیکھا تو پہلے وہ چونکا،
" یہ ذوالعرش یہاں پر؟" اس نے اپنے آپ ہی سوال کیا دوستوں سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اسی سمت گیا.  ذوالعرش کو واش روم نہیں ملا تو وہاں موجود کمرے میں گئ دروازہ کھولا رکھ کر سامنے بیسن میں ہی پانی لے کے اپنا ڈریس صاف کرنے لگی. تب ہی وہ لڑکا چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا ذوالعرش کو جب لگا کہ کوئ اور بھی موجود ہے تو وہ فوراً پلٹی اور اسی لڑکے کو دیکھ کر گھبرا گئ جو اسے دیکھ کر ہس رہا تھا. ذوالعرش کو کچھ سہی نا لگا تو تو جانے کے لئے آگے بڑھی تو اس نے ہاتھ آگے کرکے اسے روک لیا.
" یہ کیا بدتمیزی ہے ہٹو میرے راستے سے" اس نے ہمت کرکے بات کہی لیکن یہ اس کا دل جانتا تھا کہ وہ اس لڑکے کے معنی خیز مسکراہٹ سے کتنی گھبرائیں ہوئ تھی.
" ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے ڈارلنگ..!!! اپنا تھوڑا وقت ہمیں بھی دو اتنا سنور کر آئ ہو ہمیں بھی تو کچھ فائدہ ہو" اس کی بات سن کر ذوالعرش کے ڈر میں اور اضافہ ہوا. اس نے کہتے ہوئے ذوالعرش کا ہاتھ پکڑ لیا، اس سے پہلے کے ذوالعرش کچھ کہتی اپنا ہاتھ چھڑاتیں دروازہ کھولنے کی آواز پر دونوں نے موڑ کر دیکھا،
دروازے پر کھڑے ہوئے شخص کا چہرا غصے سے لال ہورہا تھا تو اس کی آنکھیں اب بھی بے یقینی سے ذوالعرش کو دیکھ رہی تھی. اس مے لئے جیسے یہ منظر کو سچ مان لینا ناممکن تھا،
"اذان" ذوالعرش کو اپنی آواز کسی کھائ میں سے آتی ہوئ محسوس ہوئ، اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور دوڑتی ہوئ اذان کے پاس آئ،
"اذان جیسا تم سمجھ رہے ہو ایسا بالکل نہیں ہے،میری بات سنو اذان" اس کی آنکھیں اور خاموشی ذوالعرش کو اور بھی خوف دلا رہے تھے.
ذوالعرش نے پھر سے بولنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ اذان نے ایک زوردار طمانچہ ذوالعرش کے نازک گال پر رسید دیا، وہ اس کے لئے قطعی تیار نا تھی. لڑکھڑا کر قریبی کارنر اسٹینڈ سے ٹکرا گئ. تھپڑ کی شدت اتنی تھی کہ اس کے ہونٹ سے خون بہہ نکلا. اذان اس کے نکلتے خون کو نظر انداز کرتے ہوئے دید غصے کے عالم میں وہاں سے چلا گیا. اور ذوالعرش کو لگا اس کے جسم پر ہی نہیں اس کی روح پر بھی آج زوردار تھپڑ لگا ہے.......
(جاری ہے)
"بات تو اچھی ہے لیکن میرے دل میں اور ہی بات تھی" عبداللہ صاحب کی بجائے جواب فاطمہ  بیگم کی طرف سے آیا تھا، خدیجہ بیگم سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھے گئ،
"بات یہ ہے آپا کے مجھے اپنی ذوالعرش کے لئے اذان بہت پسند ہے، ہمارا عارفین تو لاکھوں میں ایک ہے اس میں کوئ شک نہیں اپنا ہی بچا ہے بس آپ کو دل کی بات بتانا ضروری تھی" خدیجہ بیگم جو ان کے ہاں کی منتظر تھی اذان کا نام سن کر تھوڑی مایوس ہوئ. ان کا چہرہ دیکھ کر فاطمہ بیگم نے پھر کہا، "آپ کو برا لگا ہو تو معذرت آپا" ان کی بات پر خدیجہ بیگم نے اپنے آپ کرمو سمبھال کر مسکرا دیا، " ارے نہیں فاطمہ ذوالعرش آپ کی بیٹی ہے ماں ک حق تو بنتا ہے کہ وہ اپنی پسند ظاہر کرے، اذان بھی میرے بیٹے جیسا ہے مجھے برا نہیں لگا" ان کی بات پر فاطمہ بیگم کو مسکرا کر خاموش ہوئ ان دونوں کے درمیان عبداللہ صاحب جو اب تک خاموش تھے خدیجہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، " میری بات مانو تو عارفین کے لئے سحر کے بارے میں سوچ سکتی ہو، ماشاءاللہ سے بہت ہی سلجھی ہوئ لڑکی ہے تم نے تو بچپن سے دیکھا ہوا ہے اسے" عبداللہ صاحب کی بات پر خدیجہ بیگم فوراً بولی، "ارے ہاں ہماری سحر بیٹی بھی تو ہے میرے ذہن میں یہ بات نہیں آئ، اللّٰہ کے فضل سے بیٹا بہت ہی اچھا ہے میری بات کا انکار نہیں کریگا اور انکار کی وجہ بھی نہیں بنتی سحر تو ہے ہی پیاری"
" تو پھر طے رہا ذوالعرش کا رشتہ اذان سے اور عارفین کا سحر سے طے کر دیتے ہیں" ان کی بات پر مسکراتے ہوئے دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیا.
                    ...….....…..............

کمرے میں نیم تاریک اندھیرا تھا لیکن اس کمرے کے اندھیرے سے زیادہ وہ اپنے دل میں موجود روشنی کے بوجھ جانے سے بے چین تھا وہ کھڑی کے پاس اپنی سوچوں میں گم کھڑا مسلسل باہر دیکھ رہا تھا. آج گھر کے بڑوں کی کہی گئی بات نے اسے پریشان کر دیا تھا. سحر اچھی لڑکی تھی لیکن کبھی عارفین نے اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا اس کی خاص وجہ تو یہی تھی کہ اس نے کبھی ذوالعرش کے علاوہ کسی کو سوچا ہی نہیں تھا. وہ نہیں جانتا تھا کہ ذوالعرش بھی اسے پسند کرتی ہے یہ نہیں لیکن اس کے دل میں بس اسی کا خیال ہمیشہ سے تھا.
"یہ کیسی کشمکش ہے ایک طرف میرے دل کی آرزو اور دوسری طرف تیری رضا" اس کی آنکھوں میں ذوالعرش کا چہرہ نمایاں ہوا.. اس نے اپنی آنکھیں بند کردیں.
اس کے لبوں پر اب کوئ بات نہ آئ بس خاموش فضا کو اب وہ آنکھ بند کرکے محسوس کررہا تھا.
                  .............................

وہ چلتا ہوا ذوالعرش کے کمرے تک آیا. مسکراتے ہوئے دروازے پر دستک دیں وہ جو اندر اپنے ابا کے فیصلے کے بارے میں سوچ رہی تھی دستک پر بری طرح چوکی. "ہاں آجاؤ" اس نے بنا پلٹے ہی زور سے پکارا. اس کی آواز پر دروازہ پرے ڈھکیل کر اندر آتا ہوا وہ اذان تھا.
"ذوالعرش" اس نے پکارا تو ذوالعرش اس کی آواز سن کر فوراً پلٹی. روز اس کا سامنا ہوتا تھا لیکن ابا کے فیصلے کے بعد اس کا سامنا کرنا اس کے لئے مشکل ہورہا تھا. وہ بنا کچھ کہے بس اسے دیکھے جارہا تھا اس کی ان نظروں کو اپنے اوپر پاتے ہوئے ذوالعرش نے نظریں نیچے کرلیں اور اٹھ کھڑی ہوئ.
" میں بس ایک بات کہنے آیا تھا" وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا. ذوالعرش کو اس کا اس طرح بے تکلف ہونا نا جانے کیوں اچھا نہیں لگا. شاید ابا کے فیصلے کی بات اب تک ذہن میں گردش کررہی تھی اس لئے اس نے اپنے آپ کو تسلی دیں.
"تایا ابو کے فیصلے سے میں بہت خوش ہوں ذوالعرش اس کی وجہ بس یہی ہے کہ میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور نکاح بھی کرنا چاہتا تھا تو دیکھو اللّٰہ نے میری آرزو پوری کردی اور تمھیں میری زندگی میں شامل کردیا" اس کی آخری بات پر ذوالعرش نے اس کی جانب دیکھا جس کے لبوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکرا رہی تھی اذان کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ واقعی بہت خوش ہے.
"اور تم دیکھنا ہم ساتھ ساتھ بہت خوش رہے گے یہ میرا وعدہ ہے تم سے" اس کی بات پر ذوالعرش کے چہرے پر مسکراہٹ آئ لیکن دل کی کیفیت وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ خوش ہے یا نا خوش.
اپنی بار کہہ کر اذان کمرے سے چلا گیا ذوالعرش پھر بیڈ پر بیٹھ گئ." کتنی عجیب بات ہے اذان نے اپنی پسند کا اقرار کیا لیکن مجھ سے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا میں خوش ہوں یا نہیں." اس کے دل میں کسی کا خیال تھا بھی یا نہیں اس نے کبھی اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا تھا
"اور عارفین" اس کے لبوں پر اس کا نام آتے ہی ذوالعرش چونکی،

"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟" ذوالعرش کھولے بال ہاتھوں میں چوڑیوں کا سیٹ نیلے سوٹ میں کافی خوبصورت لگ رہی تھی اس نے عارفین سے پوچھا جو کتنے وقت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا.
"ہر سوال کا جواب زبان سے نہیں دیا جاتا مس صدیقی" اس نے مسکراتے ہوئے اس کے گال کو چھوا  اور ذوالعرش جو اس کی بات کو نا سمجھ پائ تھی منہ ٹیڑہ کئے دوسری جانب دیکھنے لگی اس کی اس حرکت پر عارفین نے زور سے قہقہہ لگایا اور اسے دیکھ وہ بھی ہس دی.
"عارفین کا خیال اس وقت" اس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو مسلا وہ اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھیں. رات کے کپڑے ہاتھ میں لئے واش روم میں چلی گئ.
                   ............................

سب بڑے خوش تھے کہ گھر کے چاروں بچوں میں رشتہ جوڑ کر .بس چاروں ہی تھے جو اب تک نا کچھ سمجھ پائے تھے نا ہی ایک دوسرے سے بات کرتے تھے. ذوالعرش نے جب سحر سے عارفین کے بارے میں پوچھا تو اس نے بس یہی کہا، " جیسی بڑوں کی مرضی" اس کی بات پر ذوالعرش نے پھر کبھی اس بارے میں بات نہیں کی. عارفین اس دن کے بعد سے صدیقی ہاؤس میں نہیں آتا تھا عبداللہ صاحب نے اس بارے میں کہا تو " ارے اب رشتہ جوڑ گیا ہے بس اسی لئے نہیں آتا" ان کی بات پر خدیجہ بیگم نے ہستے ہوئے کہا، یوں تو اب تک زندگی کا معمول سکون سے گزر رہا تھا لیکن کسے پتا تھا کہ اب سے عارفین، ذوالعرش، سحر اور اذان کی زندگی کروٹ لینے والی تھی.
    اذان نے بزنس میں بہت فائدہ کرایا تھا جس سے عبداللہ صاحب نے خوش ہوکر اسے شہر کے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ کاروبار میں اور ترقی ہو. اذان کی اس کامیابی پر سب خوش تھے. عارفین جس کمپنی میں جوب کرتا تھا انھوں نے اسے بھی ٹریننگ کے لئے شہر سے دور بھیجا جہاں وہ اپنے کلیگ کے ساتھ رہنے لگا. سحر تو یوں بھی اپنے کورس میں مصروف تھی صبح جاتی شام کو آتی اور رات کا کھانا بنانے میں فاطمہ بیگم کج مدد کرتی. بس ایک ذوالعرش تھی جس نے اپنی زندگی کا معمول پوری طرح سے بدل لیا تھا. کالج میں ایڈمیشن کے بعد جب اس کا پہلا دن تھا وہ سمپل سا ڈریس پہنے سر پر سکارف باندھے بہت خوشی خوشی گئ نئے نئے دوست بنائے اور زندگی کو نئے انداز میں جینے لگی....چھ مہینے تو یوں ہی گزر گئے
                     ...............…...........

"بہت بور ہورہا ہے یار چلو نا موی کے لئے چلتے ہیں" صبا نے بیزار ہوتے ہوئے ذوالعرش سے کہا، وہ سب دوستوں کا گروپ کالج کے کانٹین میں بیٹھا تھا. کچھ لڑکیاں اور کچھ لڑکے.
"ہاں چلو چلتے ہے ویسے بھی بریک کے بعد لیکچر بھی سب بور ہی ہے اس سے اچھا موی انجوائے کریگے. ذوالعرش کالا ڈریس پہنے بالوں میں کلپ لگا ہوا ہونٹوں پر لپ گلو اسکارف بیگ پر رکھا ہوا تھا پیر ہلاتے ہوئے کہہ رہی تھی. باقی سب دوستوں نے بھی ذوالعرش کی بات پر ہاں میں ہاں ملائی. سب اٹھ کر کالج سے باہر آگئے ذوالعرش بھی اسی طرح سر پر دوپٹا لئے سب کے ساتھ کھڑی تھی اسکارف پہننا جیسے وہ بھول ہی گئ تھی. سب نے اپنی اپنی مرضی بتائ پھر ایک موی کا نام ڈیسائڈ کیا اور پورا گروپ ایک ساتھ رستے پر چلنے لگا.
ذوالعرش کے لئے اب یہ بات بہت عام ہوگئ تھی دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، لیکچر بنک کرکے موی کے لئے جانا اسے لگ رہا تھا وہ بس اپنی لائف انجوائے کر رہی تھی لیکن اسے یہ پتا چل جاتا کہ وہ اپنے اللّٰہ سے دور ہورہی ہے تو یہ کبھی نا کرتی. بعض دفعہ ہم "اللّٰہ نے ہی موقعہ دیا ہے" یہ بات کہہ کر اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں اپنی ضمیر کی آواز کو سننا بند کر دیتے ہے. ہمارا ارادہ آسمان میں اڑنا ہوت ہے لیکن یم اور بھی زمین کی جانب جھکتے جاتے ہے اپنی خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں.
                  .............................

ذوالعرش جب کالج سے واپس آئ تو دروازہ بند کرتے ہی پلٹی تو وہی روک گئ سامنے ہال میں اذان صوفے پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا اسے آتے دیکھ مسکرا کر اخبار ایک سائیڈ پر رکھ کر کھڑا ہوگیا.
"زہنصیب، کب سے آپ کے انتظار میں بیٹھے ہے اور ایک آپ ہے کہ ہماری خبر تک نہیں لیتے" وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا. ذوالعرش اسے بہت دنوں بعد دیکھ رہی تھی اذان اب زیادہ مصروف رہنے لگا تھا اس لئے ان ملاقات نا ہونے کے برابر تھی. ذوالعرش کو اس سے تو کوئ فرق نہیں پڑا لیکن اذان اس کو دیکھ کر کافی خوش ہوا.
"ہاں وہ بس کالج میں دیر ہوگئی تھی، کیسے ہو تم؟" اس کے اس سوال پر اذان کا چہرہ پھر کھل اٹھا،
"بس دیکھ لو کیس ہوں" اس نے ہستے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ بھی بس مسکرا کر اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئ.
" کیسی چل رہی ہے تمھاری سٹڈیز؟"
"بہت اچھی" ذوالعرش کے جواب پر جو اذان مسکرا رہ تھا نا جانے کیوں اسے اوپر سے نیچے دیکھنے لگا، ذوالعرش کو تھوڑا عجیب لگا اس لئے وہ کھڑی ہوگئ اور اسی کے ساتھ اذان بھی کھڑا ہوگیا وہ جانے کے لئے پلٹی تو اذان نے اسے پھر مخاطب کیا.
" ذوالعرش ویسے مجھے کہنا تو نہیں چاہئیے لیکن تم بدلی بدلی سی لگ رہی ہو" اذان کی اس بات پر اس کے ماتھے پر شکنے آگئ.
"کیوں کیا بدلاؤ آیا ہے مجھ میں" اس کی اب عادت ہوگئ تھی کوئ بھی اسے اس کے بدلے ہوئے رہن سہن پر ٹوکتا وہ چڑ جاتی فاطمہ بیگم اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئ تھی اور ذوالعرش جواب میں بس یہی کہتی، " میں بس لائف انجوائے کررہی ہوں" اب کی بار بھی اس نے یہی جواب دیا تیز نظروں سے اذان کو گھورتی ہوئ اپنے کمرے میں چلی گئ. اذان وہی کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا. "یہ ایسی تو نہیں تھی" اس نے پریشان ہوکر سوچا.

کمرے میں آکر اس نے بیگ زور سے بیڈ پر پٹکا. اور اپنی ئرینگس اتارنے لگی. "کیوں سب مجھے ٹوکنے لگے ہے اپنی مرضی سے جینا بری بات ہے کیا اف میرے گھر والے اور اب یہ اذان بھی" غصے میں بڑبڑاتے ہوئے وہ چیزے رکھنے لگی.
                 .............................

اذان نے دروازے پر دستک دی تو سحر نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا اور مسکراتے ہوئے اسے اندر آنے کو کہا،
"یہ ذوالعرش کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟" اس کے سوال پر سحر نے ایک نظر اذان کو دیکھا جس کے چہرے کے تاثر بدلے ہوئے تھے،
"کیوں کیا ہوا؟" سحر نے اتنے ہی سکون سے اس سے سوال کیا،
" بہت بدلی ہوئ لگ رہی ہے وہ سحر پتا نہیں اسے دیکھ کر میرے دل کو وہ محسوس نہیں ہوا جو ہمیشہ سے اس کی ایک جھلک پر ہوتا تھا، یا پھر اس نے اپنے آپ کو بدل دیا ہے، میں شہر سے فون کرتا ہوں تو اس نے کبھی بھی مجھ سے بات نہیں کی نا ہی کبھی اس نے خود سے کال کی"
"تم کچھ زیادہ سوچ رہے ہو اذان، وہ ویسی ہی ہے ہاں بس نئے دوست وغیرہ بنے ہے نا اس کے تو،
کچھ وقت کے لئے انسان نئے ماحول نئے لوگوں کے ساتھ رہنے کی غرض سے اپنا رہن سہن بدل لیتا ہے اس میں فکر کی کوئ بات نہیں وہ کافی سمجھدار ہے سمجھ جائے گی." سحر نے سمجھاتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا،
اس کی بات پر اذان نے مسکرا کر سحر کے ہاتھ ہر مکا مارا، " خیر اس کا تو پتا نہیں لیکن تم تو بہت ہی سمجھدار ہوگئ ہو"
" ہاں تھوڑی بہت" سحر نے ہستے ہوئے کہا،
"میری پیاری سی بہنا تم فکر مت کرو میں سب اچھا برا سمجھتی ہوں" ذوالعرش نے ہستے ہوئے سحر کے گال چھوئے، سحر نے کچھ دن پہلے ہی  اسے جب سمجھایا کہ عبایا پہنا کرو اس طرح رہنا سہی نہیں لیکن ذوالعرش نے اس کی باتوں کو ہستے ہوئے ٹال دیا.
اذان اب جاچکا تھا لیکن سحر کے چہرے پر فکر اب بھی تھی اس نے اذان کو سمجھا تو دیا تھا لیکن وہ خود بھی ذوالعرش کے لئے فکرمند تھی.
                    .........…................

"امی پلیز نا" ذوالعرش اپنی ایک دوست کے بھائ کی شادی میں جانے کی اجازت کے لئے فاطمہ بیگم کے پاس کیچن میں کھڑی تھی. عبداللہ صاحب یوں بھی یہ دنوں شہر سے باہر تھے اور یہ موقع ذوالعرش کے لئے بہت ہی فائدے مند ثابت ہوا تھا کیونکہ اگر عبداللہ صاحب ہوتے تو اسے ان سے اجازت لینی پڑتی جس کی اس میں ہمت نہیں تھی.
" نہیں کہا نا ایک بار" فاطمہ بیگم اب اس کی بار بار باہر جانے سے غصہ ہوچکی تھی اور شام کا پروگرام سن کر تو انھوں نے ایک جھٹکے میں انکار کردیا.
"ارے امی میں جلدی آجاؤ گی زیادہ وقت نہیں لگے گا اگر میں نہیں گئ تو میری دوست کو برا لگے گا نا مان جائے نا اب" وہ اب ڈرامے کرنے لگی تھی.
" ٹھیک ہے پھر سحر کو ساتھ لے جاؤ" امی کی اس بات پر وہ تپ کر بولی، " امی میری دوست کے یہاں پروگرام ہے وہاں سحر کا کیا کام وہ کسی کو جانتی بھی نہیں ہے" ذوالعرش نے اب ٹھان لیا تھا کہ ماں کو اب مانا کر ہی دم لیں گی. پورے ایک گھنٹے بعد فاطمہ بیگم مان گئ. بس اسی شرط پہ کہ ڈرائیور بھی ساتھ جائے گا اور وہ ہی واپس گھر چھوڑے گا. ماں کی اس بات پر ذوالعرش فوراً مان گئ. ماں پر خوشی خوشی ڈھیر سارا پیار لٹاتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں تیاری کرنے چلی گئ.
سحر فاطمہ بیگم کی مدد کے لئے کچن میں آئ،
"اذان کہا پر ہیں سحر" کام کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا، " جی تایا امی وہ اپنے دوست کی طرف گیا ہے، اس کی کزن کی شادی میں انوائیٹیڈ تھا نا اس لئے رات میں دیر سے آئے گا. سحر کی بات پر فاطمہ بیگم نے بس مسکرا کر ہممم کہا.

    بہت محنت کرکے ایک ڈریس سلیکٹ کیا، جامنی رنگ کا کندنوں سے بھرا ہوا سوٹ، دوپٹے پر بھی ورک کیا ہوا، ہونٹوں پر لپسٹک کانوں میں بڑے جھمکے، میچ کی ہوئ چوڑیاں بالوں میں کلپ لگا کر آدھے بال پیچھے کھولے چھوڑے ہوئے تھے ہیلس پہنے ہوئے جب وہ آئینے کے سامنے آئ تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر مسکرانے لگی. وقف کافی ہوچکا تھا وہ جلدی جلدی باہر آئ کار میں ڈرائیور پہلے سے موجود تھا اسے پتا بتا کر وہ بھی بیک سیٹ پر بیٹھ گئ.
پروگرام والی جگہ پر جب وہ پہنچی تو اس کی دوست سامنے ہی موجود تھی وہ اپنا ڈریس سنبھالتے ہوئے ہیلس کی ٹک ٹک کرتی چلی آرہی تھی وہاں موجود ہر شخص کی نظر ذوالعرش پر یہ تھی وہ جامنی رنگ میں اپنی خوبصورتی کا ایک نمونہ تھی. دوست سے مل کر وہ سٹیج پر کپل کو مبارک باد دی اور نیچے اپنے کالج گروپ کے پاس آکر کھڑی ہوگئ. اس کے کافی دوری پر اذان کھڑ تھا اس کے دوست کی کزن کی وہ شادی تھی جس میں وہ شامل تھا لیکن ذوالعرش اور اذان دونوں ہی ایک دوسرے کی موجودگی سے لاعلم تھے.
ذوالعرش اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی وہاں پر موجود کچھ لڑکے اسے ہی دیکھ رہے تھے ایک نے معنی خیز انداز میں اشارہ کیا تو دوسرا لڑکا ہاتھ میں کولڈرنک کا گلاس لئے ذوالعرش کی جانب بڑھا اور اس کے کپڑوں پر کولڈرنک گرا دی ذوالعرش جو اسبات کے لئے تیار نہیں تھی کولڈرنک گرنے پر چونکی، " اوہ ریلی سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا، غلطی سے گر گیا آپ پلیز معاف کردیں مجھے" وہ لڑکا فکر سے کہہ رہا تھا. اور دور کھڑے اس کے دوست ہستے ہوئے ایک دوسرے کو ٹالی مارنے لگے.
" کوئ بات نہیں" جہاں سب دوستوں کو ڈر تھ اکہ وہ غصہ کریں گی لیکن موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ذوالعرش نے سمبھل کر جواب دیا. سب نے اسے واش روم کا پتا بتایا تو وہ ایک سمت جانے لگی اور وہی لڑکا اس کے پیچھے چل پڑا. ذوالعرش کو جاتے ہوئے اذان نے دیکھا تو پہلے وہ چونکا،
" یہ ذوالعرش یہاں پر؟" اس نے اپنے آپ ہی سوال کیا دوستوں سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اسی سمت گیا.  ذوالعرش کو واش روم نہیں ملا تو وہاں موجود کمرے میں گئ دروازہ کھولا رکھ کر سامنے بیسن میں ہی پانی لے کے اپنا ڈریس صاف کرنے لگی. تب ہی وہ لڑکا چلتا ہوا اس کے نزدیک آیا ذوالعرش کو جب لگا کہ کوئ اور بھی موجود ہے تو وہ فوراً پلٹی اور اسی لڑکے کو دیکھ کر گھبرا گئ جو اسے دیکھ کر ہس رہا تھا. ذوالعرش کو کچھ سہی نا لگا تو تو جانے کے لئے آگے بڑھی تو اس نے ہاتھ آگے کرکے اسے روک لیا.
" یہ کیا بدتمیزی ہے ہٹو میرے راستے سے" اس نے ہمت کرکے بات کہی لیکن یہ اس کا دل جانتا تھا کہ وہ اس لڑکے کے معنی خیز مسکراہٹ سے کتنی گھبرائیں ہوئ تھی.
" ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے ڈارلنگ..!!! اپنا تھوڑا وقت ہمیں بھی دو اتنا سنور کر آئ ہو ہمیں بھی تو کچھ فائدہ ہو" اس کی بات سن کر ذوالعرش کے ڈر میں اور اضافہ ہوا. اس نے کہتے ہوئے ذوالعرش کا ہاتھ پکڑ لیا، اس سے پہلے کے ذوالعرش کچھ کہتی اپنا ہاتھ چھڑاتیں دروازہ کھولنے کی آواز پر دونوں نے موڑ کر دیکھا،
دروازے پر کھڑے ہوئے شخص کا چہرا غصے سے لال ہورہا تھا تو اس کی آنکھیں اب بھی بے یقینی سے ذوالعرش کو دیکھ رہی تھی. اس مے لئے جیسے یہ منظر کو سچ مان لینا ناممکن تھا،
"اذان" ذوالعرش کو اپنی آواز کسی کھائ میں سے آتی ہوئ محسوس ہوئ، اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور دوڑتی ہوئ اذان کے پاس آئ،
"اذان جیسا تم سمجھ رہے ہو ایسا بالکل نہیں ہے،میری بات سنو اذان" اس کی آنکھیں اور خاموشی ذوالعرش کو اور بھی خوف دلا رہے تھے.
ذوالعرش نے پھر سے بولنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ اذان نے ایک زوردار طمانچہ ذوالعرش کے نازک گال پر رسید دیا، وہ اس کے لئے قطعی تیار نا تھی. لڑکھڑا کر قریبی کارنر اسٹینڈ سے ٹکرا گئ. تھپڑ کی شدت اتنی تھی کہ اس کے ہونٹ سے خون بہہ نکلا. اذان اس کے نکلتے خون کو نظر انداز کرتے ہوئے دید غصے کے عالم میں وہاں سے چلا گیا. اور ذوالعرش کو لگا اس کے جسم پر ہی نہیں اس کی روح پر بھی آج زوردار تھپڑ لگا ہے.......
(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top