مشکل کے ساتھ آسانی ہے
چھٹی قسط
بڑی مدتوں سے جو بنا تھا ایک لمحے میں سب بکھر سا گیا تھا
سب ختم سا لگ رہا تھا
رابعہ کا بھی پڑھائی میں دل نہیں لگتا وہ اپنی امی کے ساتھ بہت دیر تک جائے نماز پے بیٹھی رب سے دعائیں کرتی رہتی کے اُسکے بھائی کی کچھ تو خبر ملے
کیوکی جس دن سے وہ گیا تھا اُسنے کوئی خبر نہیں کرائی تھی نا فون کیا نا ہی کوئی خت اُسکے نام سے آیا تھا اور نا ہی شمیم کے مائیک کی ترفسے کوئی خبر تھی
زہرہ بیگم کے ذہن میں ہزاروں خدشے سر اٹھتے لیکن وہ اُنہیں نظرانداز کرتی رہتی
یہ سب اب عام ہوگیا تھا اُنہیں اپنی خبر نہیں رہتی وہ ہمیشہ پریشان حال سی رہتی اُنہیں دیکھکر رابعہ کو بہت تکلیف ہوتی انکے خاطر شازیہ بھی بار بار چکر لگاتی آئے دن انکی خبر لینے کیلئے آتی
پھر یہ ہوا کہ رابعہ اپنی پڑھائی بھی مکمل نا کر سکی اُسے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑی اب انکے لیے یہ ادنا سے اخراجات بہت حیثیت رکھتے تھے
ایک بار بھر ے سخت مرحلہ پیش آیا تھا
تب خدا نے اپنی مصلحت کے تحت ایک سایہ انکے سر سے اٹھایا تھا اور اب اسی خدا کی بندی نے اپنی کم ظرفی کے بائیس ایک سایہ اُنسے چھین لیا تھا!
زہرہ بیگم کو اب بھی یقین نہیں تھا وہ یقین کرتی بھی کیسے کچھ وجہ ہوتی تو کرتی۔۔۔۔۔۔
آصف نے تو کوئی وجہ نہیں دی تھی اور نا اُنہونے شمیم کو کوئی وجہ دی تھی لیکن جو ہوا تھا وہ ازیتناک تھا
اُنکا بیٹا اُنسے بچھڑ گیا تھا
اُنکا بھڑپے کا سہارا انکی جمع پونجی اُنسے چھین گئی تھی
یہ سب ہوا تھا محض دو ہفتوں میں ہوا تھا
ساری خوشیاں ساری رونقِ ساری راحتے ایک بار پھر ختم ہوگئی تھی ایک بار پھر اُنہیں بےسھارا کر دیا گیا تھا ایک بار پھر اُنکا صبر آزمایا جا رہا تھا
ہر اچھے بری کا اثر رابعہ کی زندگی پر ہوتا تھا اس بار بھی ہوا تھا بلکہ کہیں زیادہ ہوا تھا اسکا خواب اُسکے چاہتے سب ختم ہونے کو تھی شاید ہوگئی تھی
...............*******............
" لیجیئے خلا چائے " رابعہ نے چائے کی ٹرے نعیمہ بیگم کی طرف بڑھتے ہوئے کہا
" شازیہ چلی کیا؟ " اُنہونے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے پوچھا
رابعہ نے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ جواباً ہاں میں سیر ہلایا
" تمنے زہرہ کو بتایا میں آئی ہو٬ ذرا بولی تو اُسے مجھے ملنے بھی نہیں آرہی "
" جی میں ابھی اُنہیں بھیجتی ہو " یو کہکار وہ اندر چلی گئی
" السلام علیکم آپا ۔۔۔۔کب آئی آپ؟" بکھرے ہوئے وجود کے ساتھ زہرہ بیگم انکے سامنے تھی نعیمہ بیگم اُنہیں دیکھکر حیران رہیگی
کتنے ہی مشکل ترین حالات انپے گزرے تھے جسکی وہ خود گواہ تھی لیکن اس حال میں اُنہونے زہرہ بیگم کو پہلی دفعہ دیکھا تھا
انکی آنکھوں میں نمی در آئی تھی ۔
"وعلیکم السلام کیسی ہو؟"
" الحمدللہ میں ٹھیک ہو آپ سنائے "
" میں تو ٹھیک ہو زہرہ لیکن تم ٹھیک نہیں لگ رہی اپنا حال مت چھپاؤ مُجھسے میں سب جانتے ہو اور نا بھی جانتی تب بھی تمہارا حال سب ظاہر کر رہ ہے
"ظاہر ہو رہا ہے تو خیر اللہ کی مرضی اور جب چھپا سکتی تھی وہ بھی اللہ ہی کی مرضی تھی جیسا وہ چاہے جب وہ چاہے سب اسکی مرضی" زہرہ بیگم نے نم آنکھوں سے اپنا حال بیان کر رہی تھی
" میں نا کھیتی تھی ، نا کرو لڑکے کی شادی کیسا جادو کر دیا ہے اُسنے "
" جادو؟؟ " زہرہ بیگم نم آنکھوں سے مسکرانے لگی
" جادو نہیں تو اور کیا ہے ، کوئی ایکدم سے اتنا تو نہیں بدلتا ، اتنی جلدبازی میں کوئی اتنا بڑا فیصلہ تو نہیں کرتا
ایسے لوگوں کے پاس نہ جادو کی پوڑیاں ہوتی ہے تبھی تو بندہ نا اچھے بری کی پرواہ کرتا ہے نا تربیت کی ،
نا عزت کی ، نا خدا کی اور نا ہی جنت کی " نعیمہ بیگم افسردہ ہوکر کہنے لگی
" ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا نعیمہ آپا کیسی کی بیٹی کو ہم کو الزام دے جب ہمارا ہی خون بیوفائی کر رہا ہو تو " اُنہونے ایک گہرا ساس ہوا کے سپرد کیا
"یہ محض ایک امتحان ہے اللہ کی طرف سے بس اب اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس امتحان میں ثابت قدم رکھیں اور صبر عطا کریں"
رابعہ دور کھڑی باتے سن رہی تھی اُسنے بھی اپنی امی کی پر امین کی تھی اور اپنے بھائی کے لیے بھی اللہ سے ہدایت طلب کی تھی
کبھی ہم نہیں جانتے کہ ہدایت بھی ایک نعمت ہے اللہ جیسے اس نعمت سے نوازنا چاہتا ہے اُسے ہی نوازتا ہے ورنہ جس کے حصے میں اس رحیم رب کا جلال آئے تو وہ اُسے گمراہ رکھتا ہے پھر نا توفیق دیتا ہے نا ہدایت اور نا ہی نیکی کا وقت
….............********..............
اُنہیں اپنا گھر بھی بیچنا پڑھا تھا اُسکے بعد وہ اپنے چھوٹے سے گاؤں میں آ بسے تھی جہاں اُنکا سسرال تھا ۔۔۔اور اب خاندان کے نام پر محض دو تین گھر ہی آباد تھے باقی کی آبادی غیر مسلم اور
انجان لوگو کی تھی
وہ اب سکول نہیں جاتی تھی اور نا ہی اب زہرہ بیگم سے پہلے کی طرح محنت مشگنات ہوتی تھی رابعہ انکے لیے ہمیشہ فکرمند رہتی کچھ عرصہ ایسے ہی گزرا پھر اُسنے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی امی کو مزید محنت نئی کرنے دینگی اُسنے سلائی کا کام سیکھ لیا اور سلائی کرنے لگی
زہرہ بیگم کو آرام دینے میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئی تھی سلائی کے ساتھ ساتھ وہ عربی کی ٹیوشنز بھی لیتی
اُن دونوں کے اخراجات وہ با آسانی اٹھا لیتی تھی کبھی زیادہ کی ضرورت پڑتی تو زہرہ بیگم بھی پیچھے نہیں ہٹتے وہ بھی کچھ نہ کچھ کر لیا کرتی تھی۔۔۔
اللہ جب مصیبت دیتا ہے تو اسکا حل بھی اُسکے ساتھ دیتا ہے صبر کا دامن تھامے زندگی کی گاڑی کا پہیہ تیز رفتار سے دوڑنے لگا صبر تو اُنکا ہمسفر تھا ہی اب اللہ نے رابعہ کو ہُنر اور ہمت سے بھی نواز دیا گیا
وہ بڑی خوشی سے سلائی کام کرتی زہرہ بیگم کی طبیعت بھی اب ٹھیک نہیں رہتی تھی شازیہ اپنے سسرال میں خوش تھی حالتوں سے سمجھوتہ کیے ایک دفعہ پھر سے زندگی گزرنے لگی رابعہ نے ایک بیٹے کی طرح گھر کو سنبھال لیا تھا ۔
............جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top