قسط 8 (second last episode)
رات کے اس پہر میں وہ اپنے جسم کو لرزش دیتے ہوئے سڑک کنارے چل رہا تھا.....اس کی روح پر جو اثر ہوا تھا اسے اب وہ سہا نہیں جا رہا تھا...اسے یقین تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی بات سمجھے گے اسے موقع دیں گے لیکن گھر سے یوں بے دخل ہونے پر راج اپنے آپ کو سنبھالنے میں پوری کوشش کر رہا تھا.....راستے کے کنارے چلتے چلتے وہ ایک جگہ روکا تو سامنے خوشنما مسجد تھی....اس کے دل میں موجود درد اور سکون کی جو لہریں ایک ساتھ رواں تھی اس سے دور ہونے کا یہ ایک ہی ٹھکانا تھا....اس نے اپنے قدم بڑھائے مسجد کی پہلی سیڑھی اس کے سامنے تھی اس نے اپنے پیر کو حرکت دیں اور اپنا دایاں پیر سیڑھی پر رکھا.....چل کر مسجد کے دروازے پاس آکر بیٹھ گیا....باہر ایک طوفان رواں تھا ہوائیں اب بھی زوروں پر تھی اس کی آنکھوں میں آنسوں کی رفتار اب تیز ہورہی تھی.... عشاء کی نماز اندر پڑھی جارہی تھی ایک ایک کرکے سبھی فرد باہر آرہے تھے...وہ آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا.....
راج.......کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اس نے اپنا سر اوپر کیا تو سامنے دانیال تھا جو چہرے پر ڈھیر ساری پریشانی و فکر لئے اسے دیکھ رہا تھا..
تم یہاں؟؟.......یہ کیا حالت بنا لیں ہے تم نے، تم یہاں اس حالت میں بتاؤ مجھے راج کچھ کہو بھی...
راج کی مسلسل خاموشی سے اب دانیال کو ڈر لگنے لگا تھا........
کیا کہوں دانیال اب میرے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے مجھے یقین تھا کہ موم ڈیڈ مجھے سمجھے گے لیکن انھوں نے تو مجھے گھر سے ہی نکال دیا...وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ تو مجھ سے پیار کرتے تھے نا کیوں نہیں سمجھے مجھے....اپنے سے دور کردیا.......کیا میں اتنا برا ہوں؟؟
نہیں راج تم برے نہیں ہو....مجھے تو فخر ہے تم پر...تم اللّٰہ کے وہ نیک بندے ہو جس نے دین کے لئے اپنے ماں باپ کو بھی چھوڑ دیا....
یہ اتنا آسان نہیں ہے....راج نے کہا تو دانیال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا.
ہاں آسان نہیں ہے لیکن اللّٰہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا راج وہ تمھاری مشکل ضرور آسان کریگا..... دانیال کہہ کر اس کے پاس بیٹھا رہا...چند لمحوں کی خاموشی کے بعد دانیال وہاں سے چلا گیا۔۔۔راج وہی بیٹھا رہا۔
اللّٰہ میری مدد کر۔۔ اللّٰہ میری مدد کر مسلسل راج کی زبان پر یہی جملہ تھا۔
***************
عشاء کی نماز بعد مسجد کے امام صاحب وہی بیٹھے رہے...اپنے ساتھیوں سے ہم کلام ہورہے تھے کہ اچانک ان کی نظر دروازے پر بیٹھے راج پر پڑی....اس طرح نوجوان لڑکا دروازے پر کیسے اس حیرت سے دیکھتے ہوئے امام صاحب نے اپنے ایک ساتھی سے راج کو اندر بلانے کو کہا۔۔۔ساتھی دروازے پر گیا تو راج اسی طرح بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
سنو۔۔۔۔۔اس شخص نے پکار تو راج نے سر اٹھا کر اسے دیکھا،
تمھیں امام صاحب اندر بلا رہے ہیں، شخص کے کہنے پر وہ چلتا ہوا اندر آیا.....
جی۔۔۔۔راج نے بڑے ادب سے امام صاحب کو کہا
امام صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
تم وہاں کیوں بیٹھے ہو۔ اچھے خاصے نوجوان ہو اس طرح مسجد کے دروازے پر کیا بات ہے بیٹا۔۔۔۔
امام صاحب نے جس پیار سے راج کو مخاطب کیا تو جو راج ایک پیار اور آسرے کی تلاش میں تھا امام صاحب کی بات سن کر رو پڑا۔۔۔۔۔امام صاحب نے اسے سمبھالا تو وہ ان کے گلے لگ کر بچوں کی طرح رونے لگا......
ماں باپ کو ناراض کرنے والی اولاد اس طرح ہی ہوتی ہے۔۔۔۔میں کیا کروں میں نے ماں باپ کا حکم نہیں مانا۔۔۔۔۔میں بہت برا بیٹا ہوں۔۔۔۔
بات کیا ہے وہ بتاؤ۔۔۔۔امام صاحب نے اس کے آنسو پوچھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔تو راج نے اپنی زندگی کا ایک ایک مرحلہ امام صاحب کو بتایا۔۔۔۔۔۔۔ امام صاحب نے مسکرا کر راج کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔۔تم برے نہیں ہو لڑکے بہت خوش قسمت ہو۔۔۔۔ہمیں فخر ہے تم پر کے تم نے اپنے والدین سے زیادہ دین اسلام کو ترجیح دی۔۔۔۔ہاں مشکلیں تو آئیں گی پر تم کمزور نا پڑھنا اللّٰہ تمھارے ساتھ ہے۔۔۔۔۔ مجھ سے جو بن پڑھے گا میں تمھارے لئے کرونگا اب تم میرے ساتھ رہو....
چلو۔۔۔۔امام صاحب جو ضعیف تھے لیکن جسمانی تندرستی کافی ظاہر ہورہی تھی....
ان کے ہاتھ دینے پر راج نے ان کا ہاتھ تھاما اور چلتا ہوا مسجد کے باہر آیا۔۔۔۔
یہی پاس میں میرا گھر ہے یوں بھی میں گھر میں میرے سوا کوئ نہیں اب تم رہو میرے ساتھ مجھے خوشی ہوگی اللّٰہ کے اس نیک بندے کو ساتھ رکھ کر جس نے ایمان کے دامن کو تھاما ہے۔۔۔۔
کچھ دیر چلنے پر راج اور امام صاحب ایک چھوٹے لیکن خوبصورت سے گھر میں داخل ہوئے.....
یہ میرا غریب خانہ ہے۔۔۔اب تم بھی اسی گھر میں رہو میرے ساتھ کوئ چیز چاہیے تو بتا دینا..تم سوجاؤ بہت روچکے اب۔۔۔ امام صاحب نے کہتے ہوئے ایک پلنگ کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔۔ میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں۔ امام صاحب جانے لگے تو راج نے انھیں پکارہ۔۔۔۔کیا میں آپ کو بابا کہہ سکتا ہوں۔۔۔مجھے بیٹا کہنے والے آپ ہی پہلے شخص ہے۔۔۔۔۔راج نے جس معصومیت سے کہا امام صاحب مسکرا پڑے۔۔۔۔
ہاں بیٹا ضرور۔۔۔۔۔وہ کہہ کر دروازہ بند کرکے باہر چلے گئے وہ جو اپنے آپ کو نارمل ظاہر کئے ہوا تھا۔۔۔ امام صاحب کے جانے کے بعد فوراً زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ماں باپ کی ایک ایک یاد نے اسے آن گھیرا.....
وہ اوپر کی جانب دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔امام صاحب کے ملنے کے بعد اس کا یقین اب پختہ ہونے لگا تھا۔۔۔۔وہ اسی طرح زمین پر بیٹھے پلنگ کو ٹیک لگائے سوگیا۔
**************
فجر کے اس سکون بھرے ماحول میں دانیال نماز ادا کرنے مسجد میں آیا۔۔۔۔رات میں راج سے دور چلے جانے کا سبب بس یہ تھا کہ وہ جانتا تھا اسے کچھ وقت چاہیے ہر چیز کو سمجھنے کے لئے.... لیکن مسجد کے دروازے پر راج کو نا پاکر اس کو پریشانی ہوئ اس نے دائیں بائیں جانب دیکھا لیکن راج کہی پر بھی نہیں تھا....
سنیئے بھائ صاحب۔۔۔۔دانیال نے پاس ہی موجود آنے والے شخص سے پوچھا۔۔۔۔
کل رات یہاں پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔گورے رنگ کا۔۔ آپ نے کہی دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔
جی ہاں وہ امام صاحب کے ساتھ تھا کل رات آپ ان سے پوچھ لیں۔۔۔۔۔۔
اسے حیرانی ہوئ یہ بات جان کر کہ راج امام صاحب کے ساتھ کیوں۔۔۔وہ جانتا تھا امام صاحب سے ملاقات نماز کے بعد ہی ہوگی تو اس نے بھی نماز ادا کیں اور پھر امام صاحب کے پاس آکر بیٹھا۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔دانیال نے خوش اخلاقی سے کہا
وعلیکم السلام۔۔۔جی فرمائیں۔۔
وہ کل رات یہاں پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا میں اسے ہی تلاش کررہا تھا۔۔۔کسی نے بتایا کہ وہ آپ کے ساتھ تھا اس لئے آپ سے پوچھنے آگیا۔
آپ کون۔۔۔ امام صاحب نے دانیال کی بات پر سوال کرلیا۔
جی میں اس کا دوست ہوں۔۔
کیا آپ جانتے ہیں اس کے یہاں آنے کی وجہ۔ امام صاحب نے دلچسپی سے راج کے بارے میں پوچھنا چاہا۔
جی بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔دانیال نے بات بتائ تو امام صاحب کو یقین آگیا
وہ اس وقت میرے گھر میں ہے آپ فکر مت کرو مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنے دوست کا ساتھ دیا اسے دین کی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔امام صاحب نے کہا تو دانیال کو بے اختیار نعمت کا خیال آیا۔۔اس نے ذہن سے اس کا خیال جھٹکا۔
جی بس اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں موقع دیا۔
کیا میں اس سے مل سکتا ہوں۔؟؟؟؟
دانیال کے پوچھنے پر امام صاحب نے نفی میں سر ہلایا۔
اسے ابھی وقت دو بیٹا۔۔۔تم ملو گے تو اس کا درد وہ تمھارے سامنے کھول کے رکھ دیں گا ابھی ضرورت ہے کہ وہ اللّٰہ سے بات کریں تم بعد میں اس سے مل لینا۔۔۔دانیال نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور اٹھ کر چلا گیا۔
******************
دانیال سے بات کرنے کے کچھ دیر بعد امام صاحب اپنے گھر کو لوٹے۔۔۔۔۔
دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔راج اسی طرح زمین پر ٹیک لگائے سویا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔امام صاحب اس کے چہرے پر چھائ معصومیت کو بڑے غور سے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔
وہ چلتے ہوئے اندر کی جانب آئے۔۔ اور چائے بنانے لگے۔۔۔۔۔برتن کی آواز سے راج جو گہری نیند میں سو رہا تھا اس کی آنکھ کھول گئ۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھولی تو امام صاحب کو اپنے سامنے پایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی آنکھ مسلتے ہوئے وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔امام صاحب نے اسے دیکھا تو کہا،
ارے تم اٹھ گئے۔۔۔معاف کرنا بیٹا میرے کام کی آواز سے تمھاری نیند خراب ہوئی..۔۔۔۔۔
ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ آپ کیا کررہے ہیں۔ میں آپ کی مدد کر دوں
نہیں بیٹا۔۔۔میں تو بس چائے بنا رہا تھا۔۔۔اچھا ہوا تم بھی اٹھ گئے تمھارے لئے بھی بناتا ہوں۔۔۔تم جلدی سے تیار ہوجاو۔۔۔۔
جی۔۔۔راج کہہ کر اٹھ گیا۔۔۔امام صاحب پلٹ کر چائے بنانے لگے۔۔۔
کچھ دیر سے راج فریش ہوکر آیا تب تک چائے بن چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے آتے ہی امام صاحب نے دو کپ میں چائے نکالی اور راج کے آگے پیش کیں۔۔۔۔۔۔
راج نے چائے کا کپ منہ سے لگایا تو اتنی اچھی چائے کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکا۔
بہت اچھی چائے بنائ ہے آپ نے۔۔۔اس کی بات پر امام صاحب مسکرائے۔۔
دونوں کی چائے ختم ہوئ۔
میں کچھ دیر سے ناشتے کا انتظام کرتا ہوں۔۔تم کافی بڑے گھر کے ہو میں تمھیں اتنی سہولت نہیں دیں سکتا بیٹا۔
ارے ایسا مت کہے آپ نے میری مدد کی مجھے سہار دیا آپ کے لئے میرے دل میں بہت عزت ہے۔۔۔۔۔ آپ اس طرح کی باتیں نا سوچے میں ٹھیک ہوں اب۔۔
خوش رہو بیٹا۔۔۔چلو مسجد میں چلتے ہیں۔راج ان کے ساتھ گھر سے مسجد کی طرف چلنے لگا۔
۔
ہورہی ہے نئ زندگی کی شروعات
نا راستہ معلوم ہے، نا منزل کا پتہ
تھام کر ایک نیک شخص کا ہاتھ
راہی بن گئے سکون کی تلاش میں۔۔
***************
ظہر کی اذن ہورہی تھی۔۔۔۔ دھیرے دھیرے سبھی مرد مسجد میں آرہے تھے۔۔۔ان لوگوں میں ایک شخص دانیال بھی تھا۔۔۔۔۔ دانیال اندر داخل ہوا تو اس کی نظر سب پہلے سامنے وضو کرتے ہوئے راج پر پڑی۔۔۔۔۔دانیال کے چہرے پر مسکراہٹ آئ وہ سیدھا راج کے پاس چلا آیا....
السلام علیکم۔۔۔۔۔۔ دانیال کی کہنے پر راج نے نظر اٹھا کر دیکھا دانیال کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور فوراً اس کے گلے لگ گیا۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔کیسے ہو دانیال۔۔۔میں تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔میں پہلے بھی آیا تب تم امام صاحب کے گھر پر تھے۔۔۔اس وقت ملنا مناسب نہیں تھا اس لئے یہ وقت کے لئے رک گیا۔۔۔۔کیسے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔اب ٹھیک ہو نا۔
دانیال کے پوچھنے پر راج نے پھیکی مسکراہٹ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔چلو نماز کا وقت ہوگیا۔۔۔۔۔۔اس کے بعد بات کریں گے۔
دونوں ساتھ ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوئے.
سبھی مرد نماز ادا کرکے جانے لگے۔۔۔۔۔۔ دانیال اور راج ایک کونے میں ساتھ ساتھ بیٹھ گئے..
میں امام صاحب کو کافی عرصے سے دیکھتا آیا ہوں۔۔۔بہت نیک شخص ہے۔۔۔ ان کا ساتھ تمھارے لئے بہت بہتر رہے گا راج۔۔۔۔۔۔۔اب میں تمھارے لئے مطمئن ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں۔۔ اللّٰہ کا شکر ہے۔۔۔۔۔ نیا وقت میری لائف میں آیا ہے دانیال اور اس نئے وقت کی پہلی سیڑھی میرے لئے امام صاحب ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بس دعا کرو دانیال۔۔۔۔۔۔۔
راج کے کہنے پر دانیال نے اثبت میں سر ہلایا۔ دونوں مسکرانے لگے۔
**************
مسجد کے ایک جانب امام صاحب اور راج دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔
راج مسلسل امام صاحب کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جو اپنے کسی کام میں مصروف تھے۔۔۔۔۔
اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو بچے۔۔۔۔۔۔۔
اچانک امام صاحب کے سوال پر راج چونک گیا۔۔
جی بس ایک بات دل میں کے آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔
رے تم میرے بیٹے ہو۔۔۔۔۔بیٹا کبھی باپ سے اجازت طلب نہیں کرتا۔۔۔کہو کیا کہنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
راج کے دل میں سکون اترا۔۔
کیا میں آپ کو بابا کہہ کر بلا سکتا ہوں۔۔۔
راج کی بات پر پہلے امام صاحب چونکے پھر دھیرے سے مسکرائے۔۔۔
کوں نہیں۔۔۔۔جو تم پیار سے کہو۔۔۔مجھے کوئ اعتراض نہیں ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔
راج نے خوشی سے انھیں شکریہ کہا۔
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد امام صاحب راج کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔۔۔اور کہا۔۔
بیٹا اب یہ راج نام تمھارے لئے استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔۔کوئ اور نام رکھ لو کہ ہم تمھیں پکار سکیں۔۔
آپ ہی رکھ دو نا بابا آخر آپ ہی میرے سب کچھ ہے۔۔اس رات میری زبان پر ایک ہی بات تھی کہ اللّٰہ میری مدد کر میں نہیں جانتا تھا کہ اللّٰہ آپ کے ذریعے میری مدد فرمائیں گا۔۔ آپ بتائیں نام بابا
امام صاحب نے مسکرایا۔
عمیر۔۔۔عمیر یوسف۔۔۔۔۔امام صاحب نے ایک خوبصورت نام بتایا۔۔۔۔۔۔یہ نام مجھے بہت اچھا لگتا ہے مجھے خوشی ہوگی اسی نام سے تمھیں پکاروں۔
جیسی آپکی مرضی بابا۔۔راج نے کہا۔
راج دل ہی دل میں ایک خوبصورت نام اپنے وجود سے جوڑ جانے سے خوش تھا۔۔۔۔وہ نام بھی ایسے شخص نے دیا تھا جو اس کے لئے سب سے زیادہ عزیز تھے۔
امام صاحب اسی طرح اپنے کام میں مصروف تھے اور عمیر ان کو دیکھتا رہا۔
(جاری ہے)
***************
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top