قسط 5

لائبریری میں نعمت اپنی کتابیں ہاتھ میں لئے دروازے سے باہر نکل رہی تھی. جب دروازہ بند کرکے وہ پلٹی تو سامنے راج کو پاکر وہ بری طرح چونکی پریشان سی ایک قدم پیچھے ہوئ. اس کے پریشان چہرے کو دیکھ کر راج کو ہنسی آئ جسے اس نے مشکل سے اپنے چہرے پر آنے سے روکا.
"یہ ڈرنے کی عادت آپ کی ابھی تک گئ نہیں اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا، تو نعمت گھور کے رہ گئ.
" اور یوں اچانک سامنے آجانے کی بھی عادت آپ کی ابھی تک نہیں گئ" وہ کہہ کر جانے لگی تو راج اس کے ساتھ چلنے لگا. نعمت اپنے دل پہ قابو کئے بنا دیکھے تیز تیز قدم چلنے لگی. اور راج اسی کے قدموں کو ہم قدم کئے خاموشی سے چلنے لگا. نعمت نے اپنے پیروں کی جانب دیکھا اور ساتھ چلتے راج کے قدموں کو جو اسی کے ساتھ چل رہے تھے.
" ہمارا ساتھ چلنا ناممکن ہے، نا دل راضی ہے نا میری روح مجھے اور مشکل میں مت ڈالو راج" نعمت کی بات پر راج کے قدم روکے وہ اس کی جانب دیکھنے لگا جو اب بھی دھیرے دھیرے چل رہی تھی. وہ پھر تیزی سے اس کے پاس آیا،
" اس ناممکن کو ہی ممکن کر آیا ہوں میں، اپنے دل اور روح کو میں نے تمھارے مذہب پر راضی کر لیا ہے." راج کی بات پر نعمت نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جو مسکرا رہا تھا. راج اس کے اور قریب آکر کھڑا ہوگیا. نعمت اسے بے یقینی سے دیکھ رہی تھی. اس نے سچے دل سے اللّٰہ سے دعا کی تھی اور وہ قبول بھی ہوئ.
"میں نے اسلام کو دل سے ایسسپٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تمھارے لئے.....ہمارے لئے" راج نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،
"میں پوری کوشش کررہا ہو اور اونیسٹلی میں دل سے یہ کر رہا ہوں. بس نعمت مجھے کچھ وقت دو کہ میں راج بن کر نہیں ایک مومن بن کر تمھارے سامنے آؤں، میں اپنے ایک نیو فرینڈ کی ہیلپ لے رہا ہوں..تم دعا کرو میرے لئے انشاء اللہ تمھارا دل بھی راضی ہوگا پھر اور روح بھی" راج اپنی بات کہہ جا رہا تھا اور نعمت خاموشی سے بس اسے سن رہی تھی. " میں جانتا ہوں نعمت تم بھی مجھے پسند کرتی ہو، اگر نہیں بھی تو بس کہہ دو کہ تم مجھ سے محبت کرنے کی کوشش کروگی اپنے اس دل کو میرے لیے راضی کروگی" راج کی زبان سے یہ باتیں سننا اللّٰہ کا نام سننا اس کے دل کو خوشی دیں رہا تھا وہ اس پر یقین بھی کر رہی تھی کیونکہ اسے اللّٰہ سے کی جانے والی اپنی دعا پر یقین تھا لیکن وہ جانتی تھی یہ سب اتنا آسان بھی نہیں وہ کیسے اس سے کچھ کہے اور کیا کہے، نعمت سے اور روکا نہیں گیا وہ چلنے لگی، راج اس کے سامنے کھڑے ہوگیا. "پلیز نعمت کچھ تو کہو ایک لفظ ہی کہہ دو کہ مجھے تسلی ہو جائے" راج اسکے جواب کا انتظار کرتے اسی سے مخاطب تھا لیکن نعمت بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئ اور اس بار راج نے اس کا پیچھا نہیں کیا.

*******************
"اللّٰہ مجھے ہمت دیں اور راج کو بھی" اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو زبان پر پہلی دعا یہی آئ نا جانے کیوں اس نے یہ دعا کی وہ بھی پورے یقین سے اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھا اس کے لب خاموش ہوگئے. اس نے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا. وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آگئ.
" نعمت" ماں کے پکارنے پر وہ کچن میں چلی آئ.
" جی امی " اس نے کہا،
" باہر دیکھو ذرا دانیال آیا کیا، فون پہ کہا آرہا ہوں اب صاحب کا اتا پتا ہی نہیں ہے" سکینہ نور کے کہنے پر وہ باہر آئ دروازے پر کھڑے رہ کر دیکھا تو جو اس نے دیکھا وہ وہی کہ وہی کھڑی رہ گئ. باہر لاون کے پاس دانیال راج کے ساتھ کھڑا باتیں کررہا تھا. دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر نعمت حیران ہوئ.
" دانیال راج کو کیسے جانتا ہے؟" خود سے سوال کیا تو اچانک راج کی کہی گئی بات اس کے ذہن میں آئ. وہ بنا دانیال کو بلائے پلٹ آئ.
"تو وہ نیا دوست دانیال بھائ ہے جو اس کی مدد کررہے ہیں" وہ حیران ہی اپنے کمرے میں لوٹ آئی.
کچھ وقت بعد دانیال اس کے کمرے میں چلا آیا.
" ارے یہاں کیا کر رہی ہو؟ امی نے تمھیں مجھے بلانے بھیجا تھا تم خود کمرے میں آگئ" وہ اس کے سامنے کھڑا ہوا تو نعمت خود کو نورمل کرتے ہوئے کھڑی ہوئ. " میں آئ تھی آپ کو بلانے آپ باہر کسی کے ساتھ کھڑے تھے اس لئے آواز نہیں دیں"
" اوہ ہاں وہ اپنے پڑوسی ہے اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا" وہ کہتے ہوئے پلٹا کہ نعمت نے پڑوسی لفظ سن کر اس لفظ کو دہرایا،
"ہاں وہ راج سنہا ہے ہمارے پاس والے گھر میں رہتے ہیں نا آکاش سنہا اور نیتا تم ان کو جانتی تو ہو نا ان کا بیٹا تھا وہ کچھ وقت پہلے آیا ہے اس لئے تمھیں پتا نہیں، تمھاری کالج میں ہی تو پڑھتا ہے" دانیال کہہ رہ تھا اور نعمت کے ذہن میں صبح راج کی کہی جانے والی باتیں گردش کر رہی تھی.
"تو راج ہمارے گھر کے پاس رہتا ہے اور یہ بات مجھے ابھی تک پتا نہیں چلا، پت چلے بھی کیسے کالج کے علاوہ میں باہر نکلتی بھی نہیں اور نیتا آنٹی سے بھی کب سے ملی نہیں" اس نے خود کلامی کیں. دانیال جاچکا تھا وہ بھی باہر آگئی.

******************
"نہیں دانیال تم جلدی فری ہوکر ملو مجھ سے، تم کل بھی نہیں ملے سچ کہوں تم سے وہ حدیث کی باتیں سننا مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور تم نے جو بھی مجھے یاد کرنے کو کہا وہ سب ہوگیا " راج کمرے میں ٹہلتے ہوئے فون پر دانیال سے بات کررہا تھا.
"کیا سب ہوگیا؟" اچانک پیچھے سے آتی نیتا کی آواز پر راج چونکا اور پلٹا تو نیتا اس کے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی.
"I call uh back" راج نے کہہ کر فون رکھ دیا
"کچھ نہیں موم بس فرینڈ سے بات کر رہا تھا" وہ کہہ کر انکے پاس آیا.
""اوکے، ارے ہاں میں تمھے بلانے آئ تھی مسٹر دیکشت کے یہاں پوجا ہے سو ہم وہی جا رہے ہے چلو ریڈی ہوجاو" نیتا نے کہا تو راج کے چہرے پر حیرانی چھا گئ. نیتا اس کے تاثر دیکھ کر جاتے جاتے رکی. " کیا ہوا؟" ان کے سوال پر راج نے خود کو نارمل کیا،
" کچھ نہیں، ایکچولی موم مجھے کالج کا اسائمنٹ کرنا ہے اور فرینڈ سے بھی ملنا ہے سو آپ اور ڈیڈ چلے جاؤ" راج نے نظریں پھیرتے ہوئے کہا،
"کوئ رسن نہیں ہاں تم ہمارے ساتھ چل رہے ہو بس ڈیڈ باہر ویٹ کر رہے ہے جلدی سے ریڈی ہوجاو" نیتا کہہ کر چلی گئ. اور راج موم موم کہتا رہ گیا. وہ غصے کے عالم میں کمرے میں آیا یہاں وہاں ٹہلنے لگا. اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے اپنی موم سے انکار کرے. کچھ دیر بعد مسٹر سنہا بھی کمرے میں آگئے اسے بلانے اور وہ اپنے ڈیڈ کو انکار نہیں کرسکا. وہ چلتا ہوا گھر کے باہر آیا اور کار میں بیٹھ گیا. " صرف اٹینڈ کرونگا اور کوئ بھی بہانا کرکے چلا آوگا اس نے خود کو تسلی دی.وہ اندر آیا تو سب مہمان بیٹھے باتیں کر رہے تھے وہ اسکے موم ڈیڈ کے ساتھ چلتا ہوا اندر آگیا.
"جانوی کہا پر ہے؟" راج نے پاس کھڑے اس کے موم ڈیڈ سے پوچھا،
"ہاں وہ بس آرہی ہے on the way ہے" اس کی موم نے مسکراتے ہوئے کہا.
سبھی مہمان لاون میں آگئے جہاں سب ارینج کیا ہوا تھا راج کو اب گھبراہٹ ہونے لگی کہ وہ کیسے یہاں سے نکلے. سب پوجا کرنے جما ہوئے تو وہ اسب سے نظریں بچا کر وہاں سے نکلنے لگا لیکن اسی وقت نیتا نے اسے پکار لیا.
" راج کہاں جا رہے ہو؟ یہاں آؤ" نیتا نے اپنے ہاتھ میں موجود پوجا کی تھالی اس کی طرف کیں. راج بے یقینی سے ان کی جانب دیکھنے لگا.

********************
"تھوڑے ٹائم میں آجاؤ گی" نعمت کہتے ہوئے گھر سے باہر نکلی. فورم فیل اپ کرنے کی لئے اس نے کالج کا راستہ لیا تو راستے میں اچانک اس کے سامنے ایک کار آکر روکی. وہ حیران ہوتے ہوئے کھڑکی کی جانب دیکھا تو ڈرائیونگ سیٹ پر جانوی کو دیکھ کر مسکرائ.
" کالج جا رہی ہو نا آؤ ساتھ چلتے ہیں میں بھی وہی جا رہی ہوں" جانوی کے کہنے پر نعمت فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ.
"ایکچولی ایک ریلیٹیو کے گھر پروگرام ہے بس پانچ منٹ کے لئے وہاں جانا ہے راستے میں ہی تھوڑا روکیں گے ہاں سو یو ڈونٹ مائنڈ نا؟ جانوی نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے نعمت سے کہا،
"نو اٹس اوکے" وہ کہہ کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی. کچھ دیر میں کار ایک بڑے گھر کے سامنے رکی. " میں بس پانچ منٹ میں آتی ہوں نعمت ہاں تم یہی میرا ویٹ کرنا" وہ کہہ کر چلی گئ نعمت اسے گھر کے مرکزی دروازے میں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی. وہ گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا دروازے کے ایک طرف کچھ ارینج منٹ دیکھائ دیں رہی تھی. نعمت نے اب اپنا روخ دوسری جانب کر لیا کچھ خیال آتے ہی اس نے اپنے بیگ کو کھولا ہاتھ ڈال کر کوئ چیز باہر نکالی. اس کے ہاتھ میں راج کا دیا ہوا وہی سرخ گلاب تھا جو اب مرجھا گیا تھا لیکن پھر بھی اس نے اب تک سمبھال کر رکھا تھا اس گلاب کو دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئ. اس نے گلاب واپس اپنے بیگ میں رکھا. کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی. جانوی کی گئے ہوئے اب پانچ منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا تھا اس سے رہا نہیں گیا تو وہ کار سے باہر نکل آئ ارو ٹہلتے ہوئے اسی گھر کی جانب آئ. نعمت دروازے کے سامنے پہنچی سامنے لوگوں کا ہجوم تھا اسے مناسب نہیں لگا تو مڑنے لگی. لیکن مڑتے ہوئے اچانک اس کی نظر ایک شخص پر پڑی. اس نے اپنے قدم آگے بڑھائیں اب وہ صاف صاف اس منظر کو دیکھ سکتی تھی. اس نے وہ منظر میں اس شخص کو دیکھا اسے محسوس ہوا جیسے وہ پہاڑ کے نیچے آگئی ہو. سامنے لاون میں راج سب سے آگے کھڑا پوجا کی تھالی لئے سب سے آگے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے جانوی تھی اور نا جانے کون کون لیکن نعمت کو بس راج ہی دیکھائی دیں رہا تھا اس کے آس پاس کا سار منظر دھندلا گیا. وہ بے یقینی سے راج کی جانب دیکھ رہی تھی جو کافی فاصلے پر تھا اس نے پھر ایک قدم آگے کئے کہ کہی اسے کوئی غلط فہمی ن ہوئ ہو. لیکن ایک قدم آگے کیا بڑھا اس نے اپنے دل کو ٹوٹتا ہوا محسوس کیں. نعمت کی آنکھوں میں اب آنسو رواں تھے وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی. کیا کیا نہیں سوچ تھا اس نے اس شخص کے بارے میں بس ایک لمحہ لگا سب جزباتوں کو دھوکے کی آگ میں جلنے کو اس کی سماعتوں میں راج کی کہی گئ ایک ایک بات یاد آرہی تھی کتنا مان تھا اسے اپنے آپ پر اور اس کے بدلاؤ پر وہ ایک مورت کی طرح وہی جم گئ.

"جانوی" راج نے کہہ کر پیچھے کھڑی جانوی کی طرف پوجا کی تھالی کو آگے بڑھایا جانوی نے اس کے ہاتھ سے وہ تھال لی اور ایک قدم آگے بڑھی اب وہ راج کے برابر تھی. راج نے تھالی اسے دیں کر پیچھے ہونے لگا اس کی نظریں بے ساختہ سامنے کی جانب گئ. دور کھڑی اس لڑکی کو اس نے ایک لمحہ ذائع کیے بنا ہی پہچان لیا. وہ پیچھے ہوتے ہوتے روک گیا کچھ فاصلے پر کھڑی نعمت کے وجود سے آج پہلی بار اسے خوف آیا وہ اتنی دور سے بھی اس کے چہرے کے تاثرات کو جان گیا تھا اس کے جسم میں اب کوئ حرکت نہیں ہوئی وہ حیران نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا. نعمت نے اپنے گالوں پر آتے ہوئے آنسو پوچھے اور پلٹ کر راستے پر چلی گئ. یہاں راج کی آنکھوں میں اس کے وجود کا غائب ہو جانا اسے بے چین کرگیا. وہ بنا کسی سے کچھ کہے باہر کی جانب دوڑا سب نے اسے حیرانی سے دیکھا. نیتا اسے پکارنے لگی لیکن اسے کسی کی آواز سنائی نہیں دیں رہی تھی اس کے ذہن میں بس نعمت کا چہرہ تھا جس کی آنکھوں میں آنسوں تھے. وہ دوڑتا ہوا باہر آیا.

کوئ پوچھے مجھ سے ایک لمحے میں کسی کو کھونے کا خوف کیا ہوتا ہیں کسی اپنے کے آنکھوں میں آنسوؤں کو دیکھنے کا درد کیا ہوتا ہیں
(از قلم ثانیہ قاضی)
(جاری ہے)
Hope uh gyuz like it so please
Give vote and comments friends
Keep supporting...!!!!!😍❤️

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top