Episode 6 to 8
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_6
#by_fariha_muzaffar
وہ تینوں موٹرسائیکل پر سوار مٹر گشت کرنے میں مشغول تھے۔سہان انہیں گھماتا گھماتا ناجانے کہاں تک لے آیا تھا ۔
او شٹ ۔بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا ۔
کیا ہوا؟ ۔عرشمان اور حذیفہ نے بھی پریشان ہو کر پوچھا ۔
تیرے سسرالیے کھڑے ہیں سامنے ۔سہان نے حذیفہ کو تنگ کیا ۔
تو پریشانی کی کیا بات ہے سلام دعا کر لیتے ہیں۔حذیفہ نے بے خوف انداز میں کہا تو سہان نے پولیس والوں کے پاس لے جا کر موٹرسائیکل کھڑی کر دی جو کڑی نظروں سے تینوں کو دیکھ رہے تھے ۔
کہاں سے آ رہے ہو تم لوگ اس وقت؟ ۔اس نے گھورتے ہوئے پوچھا تو حذیفہ جھٹ سے بولا ۔
شادی سے آ رہے ہیں۔پولیس والے نے تینوں کو سر سے پیر تک دیکھا جو کہیں سے نہیں لگ رہے تھے کہ کسی شادی سے آ رہے ہوں۔
کس کی شادی سے؟ ۔مشکوک لہجے میں پوچھا گیا ۔
وہ خالہ کے کزن کی بھابھی کی جیٹھانی کے چاچا کی بھتیجی کے بیٹے کی سالی کی بیٹی کی بیٹی کے دادا کی پوتی کے خالو کی بھانجی کے بھائی کے بھتیجے کی بیٹی کی شادی سے ۔سہان نے مسکراتے ہوئے پٹر پٹر اپنی زبان چلائی ۔عرشمان سنجیدگی سے دونوں کی فضول گوئی سن رہا تھا ۔
اوئے چھورے سیدھی طرح بتا کہاں سا آ رہا ہے اس وقت؟ ۔اب کی بار پولیس والے نے قدرت سختی سے پوچھا ۔مگر مقابل کہاں ایسی سختیوں کو خاطر میں لانے والے تھے ۔
بتایا تو ہے خالہ کے کزن کی بھابھی.... ابھی سہان نے پھر سے بولنا شروع کیا ہی تھا کہ پولیس والے نے اکتا کر ہاتھ سے اسے چپ رہنے کا شارہ کیا ۔
اوئے کاکے تو بتا کہاں سے آ رہے ہو؟ ۔اس نے عرشمان کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔
سر یہ کاکا نہیں بولے گا کیونکہ یہ تو چھوٹا سا ننھا منھا سا کاکا ہے نہ اور یہ کاکا اپنا فیڈر گھر بھول گیا ہے اس لیے میلا کاکا ناراض ہے ۔حذیفہ نے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو پولیس والے کا دل چاہا تھا ان دونوں کو اٹھا کر پرے دے مارنے کا ۔اکتاتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی کاپی سے ایک صفحہ پھاڑتے ہوئے سہان کے ہاتھ میں تھمایا ۔
یہ کیا ہے؟ ۔سہان نے اس کو پڑھے بغیر الٹ پلٹ کر دیکھا ۔
چالان ہے پیسے دو اور جاؤ یہاں سے ۔پولیس والے نے زچ آتے ہوئے انہیں کہا ۔
کیوں ہم نے تو کچھ ایسا نہیں کیا جس کا چالان بھریں ۔عرشمان بھی بلآخر بولا ۔
دیکھو لڑکو ڈبل سواری پر پابندی ہے اور تم لوگ تین بیٹھے ہوئے تھے موٹرسائیکل پر اس لیے چالان تو بھرنا ہی پڑے گا نا تم لوگوں کو ۔پولیس والے نے اپنی موٹی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں سمجھایا ۔
ہاں تو ڈبل سواری پر پابندی ہے ہم لوگ تو تین بیٹھے تھے پھر ہم ڈبل کیسے ہوئے؟ ۔حذیفہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورتے ہوئے بولا ۔
ڈبل سواری مطلب دو لوگ اکٹھے موٹر سائیکل پر نہیں بیٹھ سکتے اور تم لوگ تین بیٹھے تھے ۔پولیس والا دانت پیستے ہوئے بولا ۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں دو لوگ ڈبل ہوتے ہیں لیکن ہم تو تین تھے پھر ہم ڈبل کیسے ہوئے؟ ۔حذیفہ بدستور اس کا سر کھا رہا تھا ۔
دیکھو ایک تم ایک یہ ہوئے نا ڈبل اور یہ ساتھ ایک تیسرا. تم لوگ ڈبل لوگوں سے بھی ذیادہ لوگ بیٹھے ہو ۔تحمل سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔
دیکھیں ایک یہ شدید سنگل. ایک یہ شدید سنگل اور ایک میں شدید سے بھی شدید والا سنگل ہم ڈبل کیسے ہو سکتے ہیں؟ ۔سہان نے الجھن آمیز لہجے میں پوچھا ۔
سہان تو اپنے موکل سے پوچھ شاید ان کو کچھ پتا ہو ۔عرشمان نے سہان کو مخاطب کیا تو پولیس والا چونک گیا ۔
موکل کیا کہتے ہو؟ ہم واقعی میں ڈبل تھے؟ ۔وہ اپنے دائیں کندھے کی طرف چہرہ جھکا کر بولا ۔تو پولیس والے کا رنگ زرد پڑنے لگا ۔
ککک... ککک... کون سے موکل؟ ۔وہ ہلکلاتے ہوئے بولا ۔
ارے آپ کو نہیں پتا؟ ہمارے دوست کے پاس موکل ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور جو اس کو تنگ کرتا ہے نا اس کو بھوتوں والے بنگلے میں چھوڑ آتے ہیں لیکن آپ پریشان نہیں ہوں آپ کو کچھ نہیں کہیں گے ۔عرشمان رازدرانہ انداز میں اسے بتانے لگا ۔پولیس والے نے سہم کر سہان کو دیکھا جو ابھی تک اپنے دائیں کندھے کی طرف چہرہ جھکائے باتیں کر رہا تھا ۔
کالی رات، سہان کے موکل اور بھوت بنگلا.... پولیس والے کے تو سن کر اوسان خطا ہونے لگے اب تو اس کا ساتھی بھی کرسی پر بیٹھ کر سو گیا تھا ۔اس نے ایک جھرجھری سی لی ۔
او میرے باپ جاؤ.... جاؤ یہاں سے مجھے بخش دو غلطی ہو گئی مجھ سے جو میں نے تم آفتوں کو روک لیا جاؤ مجھے بخشو ۔وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے ان سے منت کرنے لگا ۔سہان جھٹ سے بائیک پر سوار ہوا چنڈ سیکنڈ بعد پھر وہ لوگ آوارہ گردی کرنے میں مشغول ہو گئے تھے ۔
***********
عزم اور اسکی فیملی ڈنر کے بعد اپنے گھر جا چکی تھی ۔ضوبیہ کا دل بوجھل ہوا جا رہا تھا ۔ عبداللّٰہ صاحب نے بغور ان کا چہرہ دیکھا ۔
کیا بات ہے بیگم کیوں پریشان لگ رہی ہیں؟ ۔وہ کتاب کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔
کچھ نہیں بس آپ کے لاڈلے سپوت نے ایک گہری سوچ میں ڈال دیا ہے ۔وہ افسردگی سے بولیں۔
کون سی گہری سوچ؟ ۔عبداللّٰہ صاحب نے الجھن آمیز لہجے میں پوچھا ۔
اسکا رویہ عزم کے ساتھ بہت عجیب سا ہو گیا ہے آج اسے پتا بھی تھا کہ وہ آنے والی ہی میرے کہنے پر اسے لینے بھی نہیں گیا اور کال تک نہیں کی بس مجھے لگ رہا ہے ہم نے عزم کے ساتھ کوئی ذیادتی کر دی ہے... وہ بہت حساس ہے میں اس کو اپنی وجہ سے کسی دکھ میں نہیں ڈال سکتی ۔وہ پس مردگی سے بولیں تو عبداللّٰہ صاحب کے چہرے پر بھی پریشانی کے سائے لہرائے ۔
اسے کوئی ضروری کام ہو گا بیگم کیوں فکر مند ہوتی ہو ویسے بھی اس کی مرضی سے ہی تو یہ رشتہ طے ہوا تھا پھر پریشانی کس بات کی؟ ۔انہوں نے بظاہر نارمل لہجے میں کہا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ پریشان ہو گئے تھے ۔
یہی تو پریشانی کی بات ہے اس کی مرضی سے ہی یہ رشتہ طے ہوا تھا اور اب اس کا بدلتا انداز میری سمجھ سے باہر ہے ۔ضوبیہ کی آواز نیند سے بوجھل ہو رہی تھی ۔
کچھ نہیں ہو گا دو چار دنوں میں ہو جائے گا ٹھیک وہ ۔عبداللّٰہ صاحب بھی آنکھیں موند گئے ۔
اچانک زوردار دھماکے کی آواز گونجی ۔دھماکہ دروازہ بند ہونے سے ہوا تھا ۔یہ سہان نے اپنی واپسی کا بتایا تھا اپنے ماں باپ کو ضوبیہ اور عبداللّٰہ صاحب بس تاسف سے سر ہلا کر رہ گئے۔
******************
رات کے اندھیرے چھٹنے لگے تو چاند اور ستارے بھی دن کی چمکدار روشنی میں معدوم ہونے لگے ۔پرندے چہچہاتے ہوئے تلاشِ رزق میں نکل پڑے ۔جب سورج کی زرد کرنیں پوری طرح زمین پر اپنے قدم جما چکیں تو لوگوں نے اپنے اپنے روزمرہ کاموں کا شغل شروع کر دیا ۔
لاہور کے ڈیفینس ایریا میں موجود ایک خوبصورت مگر چھوٹے سے گھر میں جائیں تو ناشتے کے ٹیبل پر دل للچا دینے والا ناشتہ لگایا جا چکا تھا ۔
راعنین آ جاؤ بچے ناشتہ کر لو ۔سمیرہ نے راعنین کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اسے آواز لگائی اور جوس لینے کچن کی جانب بڑھ گئی ۔
ہاتھوں میں کتابیں تھامے سر پر حجاب بنائے بیگ کندھے پر لٹکائے وہ اجلت بھرے انداز میں باہر نکلی ۔
راعنین آ جاؤ بچے ۔سمیرہ کے دوبارہ آواز لگانے پر وہ ہلکا سا مسکرائی ۔وہ مسکرائی تو ساتھ اس کی آنکھوں میں بھی مسکراہٹ کے رنگ ابھرے ۔
آ گئی راعنین ماما ۔ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔گلاس میں جوس انڈیل کر لبوں سے لگایا ۔ایک ہی سانس میں جوس ختم کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔
اوکے مما اللّٰہ حافظ ۔وہ جلدی سے آگے بڑھنے لگی ۔
راعنین ناشتہ کرو ٹھیک سے پہلے بابا ناراض ہوں گے پھر ۔سمیرہ نے پیچھے آواز لگائی ۔
اگر میں یونی سے لیٹ ہو گئی تو پروفیسر ناراض ہوں گے مما بائے ۔وہ چلاتے ہوئے دروازے سے باہر نکلی ۔اسے دیکھ کر ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی اور یونیورسٹی روٹ پر ڈال دی ۔
***************
ایزال سپیڈو سے کارڈ سکین کر کے نکلی تو فٹ پاتھ پر پیدل چلنے لگی ۔دو لڑکے جو سپیڈو میں بھی مسلسل اسے گھور رہے تھے اس کے ساتھ سپیڈو سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ایزال خاموشی سے چلتی رہی ۔تھوڑا سا چلنے کے بعد اس نے ببل سائیڈ پر پھینکی اور ایک دم پیچھے کو مڑی جس سے اس کے پیچھے چلنے والے لڑکے بوکھلا گئے ۔
بھائی مجھے اپنا نمبر دے دو ۔ایزال نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا ۔
دونوں لڑکوں نے زرد پڑتی رنگت کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
ارے پریشان نہیں ہونا نمبر دے دو نا اپنا کبھی کبھی آپ سے بات کیا کروں گی روز تنگ نہیں کرتی ۔وہ اب قدرے مسکرا کر بولی ۔
دونوں لڑکے ہونق بنے بس اس کو دیکھے جا رہے تھے ۔
ابے کمینوں شرم ورم نہیں آتی تم لوگوں کو ۔ایزال نے اپنا جوگر اتار کر ان کی طرف اچھالا ۔ان دونوں نے دم دبا کر وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی ۔ایزال نے اپنا دوسرا جوگر بھی اتار کر نشانہ لگایا جو ایک کی کمر پر جا کر لگا ۔وہ بیچارہ کراہ کر رہ گیا ۔
ابے او. جوتا دے کر جا میرا ورنہ ایزال کے ہاتھوں سے شہید ہو جاؤ گے۔ایزال نے پیچھے سے آواز لگائی تو ایک لڑکے نے فوراً اپنی دوڑ کو بریک لگائی ۔ایزال ہاتھ میں اس لڑکے کا شناختی کارڈ گھما رہی تھی ۔لڑکے نے اپنا سر پکڑ لیا ۔مرتے کیا نا کرتے کے مصداق وہ ناچار اسے کے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑ کر واپس اس کے پاس آیا ۔
یہ لیں باجی ۔اس نے جوتے نیچے رکھتے ہوئے تابعداری سے کہا ۔اور دل ہی دل میں سو دفع استغفار بھی پڑھا ۔
یہ پکڑ اور نکل یہاں سے۔شناختی کارڈ اس کے ہاتھ میں تھما کر شوز پیروں میں ڈال کر گیٹ کی طرف بڑھ گئی ۔آج اس کا موڈ نہیں تھا اس لیے وہ لڑکے اس کے ہاتھوں سے بچ گئے تھے ورنہ ایزال کے ہاتھوں کوئی بچ جائے ایسا ممکن ہی نہیں تھا ۔
*********************
آج ان کا پہلا لیکچر فری تھا اس لیے سب گراونڈ میں ہی موجود تھے ۔عرشمان، امایہ اور عزم اپنی اسائنمنٹ بنا رہے تھے جبکہ سہان اور حذیفہ گھاس پر نیم دراز تھے ۔
عرشمان؟ ۔سہان آسمان آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے عرشمان کو مخاطب کیا ۔
عرشمان سنی ان سنی کرتا اپنا کام کرتا رہا ۔
اوئے عرشمان؟ ۔چند لمحوں بعد پھر اس نے مخاطب کیا ۔
کیا ہے یار؟ ۔عرشمان نے تنگ آتے ہوئے پوچھا ۔
ایک وعدہ کرے گا مجھ سے؟ ۔سہان ابھی بھی آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا ۔اور باقی سب اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ رہے تھے ۔لیکن عزم اپنے کام میں مشغول تھی وہ جب سے آئی تھی سہان سے بات کرنے سے گریز کر رہی تھی ۔
کیسا وعدہ؟ ۔عرشمان نے الجھ کر پوچھا ۔
بس تو وعدہ کر پھر بتاتا ہوں۔وہ اٹھ کر عرشمان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولا ۔سب دلچسپی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔
وعدہ کر تو اپنی بیٹی اور میرے بیٹے کی شادی میں ویلن کا رول کرے گا ۔سہان کے چہرے پر ابھی سنجیدگی تھی جبکہ دوسروں کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی ۔عزم کا چہرہ خفت سے سرخ پڑ گیا تھا ۔
کون سی بیٹی اور کون سا بیٹا؟ تیرا دماغ ٹھیک ہے؟۔عرشمان نے خفگی سے اسے گھورا ۔
دیکھ کل کلاں کو جب تیری اور میری شادی ہو گی...
لاحولاولاقوۃ... عرشمان نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے ۔
بات تو سن گندی سوچ والے ۔سہان نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
دیکھ جب کل کلاں کو تیری کسی لڑکی سے شادی ہو گی اور میری بھی شادی ہو جائے گی تو ظاہر ہے ہمارے بچے بھی ہوں گے اور ہمارے بچوں میں تیری بیٹی بھی ہو گی اور میرا بیٹا بھی ہو گا اور ان کو ایک دوسرے سے سہی والی محبت ہو جائے گی تو تو وعدہ کر تو ان کی محبت میں ویلن کا رول کرے گا ۔سہان نے اچھا خاصا نقشہ کھینچا ۔اس کی کہانی سن کر سب کے بے ساختہ قہقہے گونجے ۔
ااور اگر ان کی محبت والی سٹوری نا شروع ہوئی تو پھر؟ ۔عرشمان نے دلچسپی سے پوچھا ۔
پھر میں خود ان کی سیٹنگ کرا دوں گا اور تو وعدہ کر تو پھر بھی ولن ہی بنے گا ۔وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔
بہت ہی کوئی بے غیرت باپ ہو گا پھر تو ۔حذیفہ نے اپنی ہنسی کو رکتے ہوئے کہا ۔
*****. ****************
جاری ہے
*********
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_7
#by_fariha_muzaffar
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ایزال گراؤنڈ میں پہنچی تھی ۔سہان نے حذیفہ سے دھیان ہٹا کر ایزال کو دیکھا ۔
او ہاتھی کی ساتھی کس گدھے کی ٹھکائی کر کے آ رہی ہو؟ ۔سہان نے دلچسپی سے اسے دیکھا تو ایزال نے ناک سکوڑ کر ناگواری سے اس پر نظریں جمائیں۔
پہلی بات تم نا مجھے ہاتھی کی ساتھی نا بلایا کرو اور دوسری بات گدھا تو آج بچ گیا میرا موڈ نہیں تھا مارنے کا ۔اس نے بیگ امایہ کی گود میں رکھتے ہوئے نہایت خوشگوار موڈ میں کہا ۔
خیر ہے تمہیں آخر آج اتنا کیوں مسکرایا جا رہا ہے؟ ۔حذیفہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا ۔
کیوں تمہارے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں خوش ہو رہی ہے تو خوش رہنے دو ۔عرشمان نے اسے گھرکا ۔
تو وکیل نا بنا کر ان کا اچھا بڑا آیا کیڈوویڈ ۔حذیفہ نے بھی ناک سکوڑا۔
یہ کیڈوویڈ کیا ہوتا ہے ذیفی؟ ۔امایہ نے ہنسی دباتے کہا ۔
یار وہی جو یہ وکیل ہوتے ہیں ۔اس نے ہاتھ جھلا کر لاپرواہی سے کہا اور ہاتھ جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا ۔اور تھوڑا اونچا ہو کر شیزل کی طرف جھانکا جو کب سے موبائل پر ٹائیپنگ کر رہا تھا ۔اس کے قریب جا کر انگڑائی لیتا ہوا وہ ٹہلنے لگا مگر شیزل تو بزی تھا اپنے موبائل میں اس نے سر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں ۔
چلتے چلتے اس نے اچانک شیزل کے ہاتھ سے موبائل جھپٹا تھا ۔اور شیزل ہکا بکا اس ہونے والے حملے کو دیکھ رہا تھا ۔
یار ذیفی نا کر موبائل واپس کر میرا ۔شیزل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب آنے کو کہا اور خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
نا آج میں بھی تو دیکھوں تو کس سے بات کر رہا ہے ہم سب کو اگنور کر کے تجھے شرم نہیں آتی ویسے دنیا کی عظیم ہستیاں تیرے سامنے بیٹھی ہیں اور تو موبائل پر بزی ہے ۔حذیفہ موبائل کا پاسورڈ کھولتے ہوئے ملامتی نظروں سے اسے دیکھتا بولا ۔
عظیم ہستیاں؟ مر جاؤں میں زرا یہ تو بتاؤ ان عظیم ہستیوں نے کون سے عظیم کارنامے کیے ہیں؟ اور کون سے قلعے فتح کر کے بیٹھے ہو یہاں؟ ۔شیزل نے بگڑتے تاثرات کے ساتھ کہا ۔
بڑے اور عظیم لوگ اپنے کارنامے نہیں بتاتے نظر لگ جاتی ہے گستاخ۔سہان نے بھی حصہ لیا۔اتنی دیر میں حذیفہ موبائل کا پاسورڈ کھول چکا تھا ۔اسکا پورا موبائل کھنگالنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہیں ملا ۔
کوئی چیٹ تو ہے نہیں اس میں پھر تو کیا ٹائیپ کر رہا تھا کب سے؟ ۔حذیفہ نے مشکوک ہوتے ہوئے اسے گھورا تو شیزل کھسیا سا گیا ۔
ڈیلیٹ کر رہا تھا چیٹس بلا میرے سر پر ٹہل رہی تھی اور میں اپنی چیٹس بھی نا ڈیلیٹ کرتا ۔شیزل نے سر جھٹکتے ہوئے کہا ۔
خیر موبائل تو تجھے ابھی بھی نہیں ملے گا جب تک ایک مزے دار سی ٹریٹ نہیں دے دیتا تو ۔سہان نے حذیفہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔سب لوگ کھڑے ہو گئے ان کی کلاس کا وقت ہو گیا تھا ۔کلاس میں پہنچ کر بیک سیٹس پر سب بیٹھ گئے۔امایہ، عزم اور ایزال اگلی قطار میں بیٹھ گئیں اور سہان، حذیفہ، شیزل اور عرشمان پچھلی قطار میں بیٹھ گئے ۔پروفیسر کلاس میں آئے تو سب سنجیدگی سے لیکچر سننے لگے ۔
سر وجاہت کے لیکچرز کی بوریت کا بھی اپنا ہی لیول ہے ۔چٹ پر لکھ کر سہان نے چٹ حذیفہ کی طرف پھینکی ۔حذیفہ پروفیسر کو عقابی نظروں سے دیکھتے چٹ کو پکڑا ۔
یار سہی بات ہے کچھ کر نکلیں یہاں سے ورنہ میں نے یہاں بیٹھے بیٹھے سو جانا ہے ۔حذیفہ نے چٹ پر جواب لکھ کر سہان کی طرف بڑھایا ۔
ہاتھی کے بیگ سے چاکلیٹ نکال حذیفہ کھائیں یار چوری کا مال کھانے کا بھی اپنا الگ ہی مزہ ہے ۔سہان نے مسکراتے ہوئے چٹ پر پین رگڑا اور حذیفہ کو پکڑایا ۔پروفیسر وجاہت چونکہ بورڈ پر لکھنے میں مصروف تھے حذیفہ نے چالاکی سے ایزال کے بیگ کی کھلی زپ میں ہاتھ ڈالا اور چاکلیٹس نکال لیں ۔عرشمان نے زور دار تھپڑ حذیفہ کی کمر پر جھڑا ۔
واٹ نان سینس؟ ۔تھپڑ کی آواز کلاس میں گونجی تو پروفیسر وجاہت نے خونخوار نگاہوں سے پوری کلاس کو گھورتے ہوئے حملہ کیا ۔سر وجاہت پوری کلاس کو دیکھ رہے تھے اور پوری کلاس عرشمان اور حذیفہ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
یو بوتھ گیٹ آؤٹ آف مائی کلاس ۔ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ غرائے تو حذیفہ تھوک نگھلتا ہوا سیدھا ہو گیا ۔
نکل تو ہم نے جانا تھا بس سر پیار سے کہہ دیتے یہ بے عزتی تو نا ہوتی ۔بیگ کو کندھے پر لٹکا کر حذیفہ باہر نکل گیا۔جبکہ عرشمان بیچارہ یونہی پھنس گیا تھا تو منہ لٹکا ہوا تھا ۔
سر؟ ۔پروفیسر کا رخ واپس بورڈ کی طرف ہوتا دیکھ سہان کے دماغ میں چوہے دوڑنے لگے ۔
جی؟ ۔وہ سوالیہ نگاہوں سے سہان کو دیکھنے لگے ۔
سر وہ میرے دوست باہر چلے گئے ہیں میں بھی چلا جاؤں وہ دراصل میرا دل نہیں لگتا نا ان کے بغیر ۔سہان نے معصومیت سے کہا تو شیزل نے اسے گھورا ۔
ایک کام کریں آپ سب باہر چلے جائیں میں یہاں دیواروں کو پڑھا لیتا ہوں ۔پروفیسر طیش میں آتے ہوئے بولے ۔
جیسے آپ کی مرضی سر ۔سہان آہستہ سے بڑبڑایا اور بیگ کندھے پر لٹکا کر باہر چلا گیا ۔
*****************
ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر عرشمان اور حذیفہ بیٹھے اسے نظر آئے تو وہ بھی ان کے پاس آ گیا ۔
پروفیسر تنہائی چاہ رہے تھے دیواروں کو پڑھانے کے لیے ۔کہتے ہی تینوں نے قہقہہ لگایا ۔حذیفہ نے ایک ایک چاکلیٹ دونوں کو دی اور کھول کر کھانے لگے ۔
حذیفہ ایک مسلہ ہو گیا ہے ۔سہان سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا ۔
کون سا مسلہ؟ ۔حذیفہ اپنی چاکلیٹ چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
عزم ناراض ہو گئی ہے یار اب بتا میں کیسے مناؤں اسے؟ ۔وہ الجھن آمیز لہجے میں بولا تو حذیفہ کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی۔
ضرور تیری کوئی غلطی ہو گی ورنہ عزم ایسے ناراض نہیں ہوتی کسی سے ۔عرشمان نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے عزم کی سائیڈ لی ۔
یار میں نے کچھ نہیں کیا یہ لڑکیاں بڑی چالاک ہوتی ہیں منگنی ہوتے ہی ایک پلینر تیار کر لیتی ہیں کہ ہم نے فلاں دن یہ بہانہ کر کے منگیتر سے ناراض ہونا ہے اور منگیتر بیچارہ پھر کوئی ایک ہفتہ لگا کر دس پندرہ ہزار خرچ کرنے کے بعد جا کر کہیں کامیاب ہوتا ہے جب تیری کوئی منگیتر آئے گی نا پھر تجھے پتا چلے گا ۔سہان ہاتھ ہلا ہلا کر بول رہا تھا ۔سہان کی آخری بات سن کر عرشمان کے چہرے کے تاثرات یک لخت بدلے تھے ۔سہان اور حذیفہ اپنی بات میں مگن ہونے کی وجہ سے اس کے تاثرات نہیں دیکھ سکے ۔
چل تو فکر نا کر میرے یار میں تیری مدد کروں گا دیکھ میرا پلین سن تو ۔حذیفہ اس کے کان میں گھستے ہوئے اپنا پلین بنانے لگا جبکہ عرشمان کی آنکھوں میں اب سرخی اترنے لگی تھی وہ ان دونوں کو چھوڑ کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔
*****************
جب تیری کوئی منگیتر آئے گی نا پھر تجھے پتا چلے گا ۔گاڑی میں بیٹھا وہ ضبط کی انتہا پر تھا ۔ایک زور دار مکا سٹئیرنگ پر مارا ۔
میرا ہاتھ پکڑ لو نینا تم گر جاؤ گی۔وہ اپنا ننھا ہاتھ اس کے آگے کرتا ہوا بولا ۔جو گاؤں کی کچی گیلی پگنڈنڈی پر رونی صورت لیے کھڑے تھی ۔
عرش مجھے ڈر لگ رہا ہے میں گر گئی تو کپڑے گندے ہو جائیں گی پھر آغاجان ماریں گے ۔وہ منمناتے ہوئے سہمے لہجے میں گویا ہوئی تو عرشمان نے اپنے ہاتھ میں اس کا ننھا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔
نینا میں تمہیں گرنے نہیں دوں گا دیکھو میں نے زور سے پکڑ لیا تمہارا ہاتھ ۔وہ مضبوط لہجے میں کہہ کر اسے ہمت دے رہا تھا نینا نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا تو عرشمان نے مسکرا کر اس کی ہمت بندھائی ۔
اس کی آنکھ سے ایک آنسو لڑھک کر اس کی آستین میں ہی جذب ہو گیا ۔وہ بے بسی سے ایک بار پھر صرف سٹئیرنگ پر ہاتھ مار کر رہ گیا ۔
****************
یہ عرش کہاں گیا ہے؟ ۔سہان نے اردگرد دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا ۔
ابھی تو یہیں تھا لگتا ہے کسی چڑیل کا دل آ گیا تھا اور اٹھا کر لے گئی ہے اسے ہاہاہاہا ۔حذیفہ نے کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگایا ۔
وہ دونوں ابھی تک بیٹھے تھے جب باقی سب بھی وہیں پہنچ گئے ۔ایزال نے غصے سے دونوں کو گھورا ۔
میری چاکلیٹس واپس کرو حذیفہ اور سہان ۔ہاتھ میں پکڑی کتابوں کو زور سے دونوں کے سروں میں مارتی وہ جارحانہ انداز میں بولی ۔
آہہہہہہہ اف اللّٰہ یہ قیامت آ گئی ہے یا زلزلہ آ رہا ہے میری کھوپڑی ہل گئی اف مجھے دن میں تارے نظر آنے لگے ہیں ہائے بچاؤ مجھے کوئی۔سہان سر کو پکڑ کر ڈرامائی انداز میں دہائی دینے لگا ۔
ڈرامے باز ڈرامے بند کرو اور چاکلیٹس واپس کرو میری ۔ایزال نے اب اس کے پیٹ میں زور دار مکا مارا تھا ۔چاکلیٹس واپس لینے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھی ۔سہان نے کراہ کر پیٹ پر ہاتھ رکھا ۔
یہ لو کمینی بھوکی ندیدی مراسن ۔اپنی جیب سے ایک بچ جانے والی چاکلیٹ نکال کر وہ اسے تھماتے ہوئے نت نئے القابات سے بھی نوازنے لگا ۔
تم خود ہو گے ندیدے، چور کہیں کے شرم نامی چیز تم میں ہے ہی نہیں لڑکیوں کے بیگ میں سے چیزیں چوری کر کر کے کگاتے ہو۔وہ چاکلیٹ کھول کر کھانے لگی ۔
او ہیلو اتنا بھی گرا ہو نہیں ہے سہان اچھا کہ لڑکیوں کے بیگ سے چیزیں نکال کر کھائے وہ تو حذیفہ نے نکالی تھی اور ویسے بھی تم کون سا لڑکی ہو ہاتھی کی ساتھی ۔وہ منہ بنا کر بولا تو ایزال کا اس کی آخری بات پر پھر سے پارہ ہائی ہوا ہاتھ میں پکڑی کتابیں بلند کی تو سہان جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
ہاتھی کی ساتھی باز رہو میرے موکل غصے میں آ گئے تو اچھا نہیں ہو گا ٹھیک ہے نا۔وہ ہاتھ بلند کر کے بولا تو ایزال کا بلند ہاتھ نیچے ہو گیا ۔
سہان عزم کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا جو خانوشی سے بیٹھی موبائل پر سکرولنگ کر رہی تھی ۔
***************
جاری ہے ۔
اگلی قسط پیر کا انشاءاللّٰہ ۔
کیا ہو گا عرشمان کا راز کیا آپ جانتے ہیں؟ کون تھی نینا؟ اور عرشمان خان آفندی ایک لڑکی کے لیے آنسو کیوں بہا رہا تھا؟ ۔
قسط پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔
فی امان اللّٰہ!
********
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_8
#by_fariha_muzaffar
گاڑی کو ریورس گھما کر بے وجہ سڑکوں پر گھومنے لگا تھا وہ سنجیدہ مزاج تھا مگر دل تو رکھتا تھا اور اس دل میں دل کے مکیں بھی رہتے تھے مگر وہ بہت سی تہوں نیچے دبا رکھے تھے اس نے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا تھا کہ زندگی میں بہت سے نئے لوگ آ گئے تھے مگر دل کے مکیں پرانے ہی تھے آج انجانے میں ہی سہی سہان نے عرشمان کے دل کو درہم برہم کر دیا تھا ۔وہ ہائی سپیڈ پر گاڑی چلا کر مونٹی سری پہنچا تھا ۔گاڑی سے بیکری سے لیا گیا سامان نکال کر وہ گارڈ کو سلام کرتا اندر آ گیا ۔یہ اس کی روٹین کا حصہ تھا وہ ہر ہفتے ایک دن مونٹی سری ضرور جاتا تھا ۔آج بھی وہ بچوں کے ساتھ دل بہلانے آ گیا ۔بچے گراؤنڈ میں سلائیڈز لینے میں مصروف تھے عرشمان کو دیکھ کر فوراً متوجہ ہوئے ۔
عرشمان بھائی آ گئے ۔ایک بچے نے چلا کر کہا تو سبھی دوڑتے ہوئے اس کی ٹانگوں سے آ کر لپٹ گئے ۔وہ بے اختیار مسکرا دیا ۔
ارے بچو کیا حال ہے؟ ۔بچوں کو دیکھ کر اس کا موڈ سیکنڈز میں تبدیل ہوا تھا ۔
ہم ٹھیک ہیں بھیا ۔ایک ننھی سی بچی نے چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھتے ہوئے کہا ۔
چلو آؤ کھیلتے ہیں سب ۔وہ بچوں کے درمیان چلتا ہوا گراؤنڈ کے وسط میں آ گیا جہاں جھولے لگے تھے ۔ایک بچہ اداس سا گھٹنون کے گرد بازو لپیٹے قدرے سائیڈ پر تنہا بیٹھا تھا ۔عرشمان نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑی چیزیں ایک سنگی بینچ پر رکھ کر اس کی طرف چل دیا ۔
ارمان؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟ وہ اس بچے سے پہلے بھی مل چکا تھا اس لیے اس کا نام جانتا تھا ۔
میرا کوئی دوست نہیں ہے عرش بھائی ۔وہ چہرہ اس کی طرف موڑ کر اداسی سے بولا آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے تھے ۔
اووو ایسے نہیں بولتے میں ہوں نا آپ کا دوست ۔اس کو گود میں لیتے ہوئے وہ نرم لہجے میں بولا۔
آپ میرے ساتھ کھیلیں گے؟ ۔وہ اچانک ہی پر جوش ہو گیا تھا ۔
ہاں اور ہم چاکلیٹ بھی کھائیں گے چلو اٹھو شاباش ۔عرشمان اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے گیا ۔
***************
سہان عزم کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا تو حذیفہ عزم کی پشت پر جا کر کھڑا ہو گیا ۔سہان نے ہمت کر کے بولنے کے لیے لب وا کیے ۔
عزم ۔ابھی اتنا کہا ہی تھا کہ عزم غصے سے اٹھ کر جانے لگے وہ برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے سامنے ہوا ۔
یار عزم بات تو سنو دیکھو میں تمہارا اک لوتا منگیتر... معصوم مظلوم... گدھا.... الو کا پٹھا.... بے عقل... نادان... نا فرمان... تم چاہو تو مجھے قتلِ عام کر دو.... پھانسی پر لٹکا دو.... میں اپنی ساری عمر تمہارے چرنوں میں بیٹھ کر گزار دوں گا... میری گستاخی معاف کردو..... میری پیاری ڈزن... مطلب... بزل... مطلب عزم، پیاری منگیتر، کزن، خالہ کی بیٹی، میری ماں کی ہونے والی بہو معاف کر دو مجھے معاف کردو ۔وہ اس کے سامنے کھڑا پیچھے سے دیکھائی جانے والی سکریپٹ دیکھ کر مسلسل بولے جا رہا تھا جبکہ حذیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ۔عزم نے نے سہان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو پوری بات اس کی سمجھ میں آئی ۔
دفع ہو تم عزم کو نہیں کرنی تم جیسے دو نمبر آدمی سے شادی ۔۔۔جو اپنی منگیتر کو تو منا نہیں سکتا ساتھ کیا نبھائے گا ہنہ ۔عزم کا ہاتھ تھام کر ایزال نے گھورتے ہوئے کہا اور اس کو گھسیٹتی ہوئی اپنے ساتھ لے گئے ۔
ہاتھی کی ساتھی میری منگیتر کو پٹیاں نا پڑھاؤ وہ مان چکی ہے ۔سہان نے پیچھے سے ہانک لگائی ۔
یار قسم سے ترس آتا ہے مجھے تیری شکل دیکھ کر ۔حذیفہ نے ہنسی کو دباتے ہوئے اس کو کندے کو تقریباً کھینچا ۔
ابے کندھا تو چھوڑ یا اتار کو یتیم خانے بھیجنا ہے تو نے اور ہاں میں عزم کو صرف ماما کی وجہ سے منا رہا ہوں ورنہ سہان عبداللّٰہ تو پلٹ کر دیکھے بھی نا کسی لڑکی کو ۔وہ ناک سکوڑ کر لاپرواہی سے بولا ۔
اوئے شیزل غدار اھر آ مغرور انسان کہاں گم ہو گیا ہے اللّٰہ نے حسن دے دیا ہے تو دوستوں سے بھی پردہ کرنے لگا ہے دیکھو سب برقعے والی لڑکیوں کو غور سے دیکھنا مل ہی جائے گا عرشمان ان میں سے ۔سہان نے حذیفہ اور شیزل کو ہدایت دی ۔
یار بس کردے تو افلاطون کے ساتھ کیوں پیدا نہیں ہوا تھا؟ ۔یہ سوال شیزل کا تھا ۔
کیوں کہ افلاطون میرے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا ۔سہان نے دانت دکھائے ۔
جدید تحقیق کے مطابق سہان افلاطون کا بچھڑا ہوا بھائی ہے یہ تحقیق ماہرِ منحوسیات، ماہرِ فریبیات اور ماہرِ نان سینس نے کی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ سہان عبداللّٰہ افلاطون کے جڑواں بھائی ہیں جو کہ الگ الگ صدیوں میں نمودار ہوئے ہیں ۔حذیفہ نے ایک اور راز افشاں کیا ۔
اور وہ ماہرِ منحوسیات کا سرٹیفیکیٹ تیرے نام حذیفہ منحوس ۔سہان نے اپنا بازو اس کی گردن کے گرد لپیٹ کر دانت پیستے ہوئے کہا ۔
چل آ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ہو کر آتے ہیں آج بریانی کی خوشبو لہک لہک کر میرے ناک سے ہوتی ہوئی میرے معدے میں کو تڑپا رہی ہے ۔وہ پیٹ پر ہاتھ پھیرتا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دیے ۔
وہاں پہنچ کر سہان نے ایک کلاس میں جھانکا جہاں لڑکیاں کسی کی برتھ ڈے پارٹی کی مکمل تیاری کیے بیٹھی تھیں. ۔سہان نے نہایت مہذب(استعفراللّٰہ) طریقے سے دروازہ ناک کیا ۔سب نے ایک ساتھ اس کی طرف دیکھا ۔
ایکسکیوزمی ڈئیر آپ سب کو ایچ او ڈی نعمان بلا رہے ہیں ۔اس نے ہاتھ باندھ کر نظریں جھکا کر (توبہ توبہ) شریف بن کر کہا ۔
کیوں؟ ۔ایک لڑکی نے مشکوک ہوتے ہوئے اسے کہا ۔
پتا نہیں وہ تو سر ہی بتا سکتے ہیں میں ان کااسسٹنٹ تھوڑی ہوں ۔سہان کی زبان ذیادہ دیر تک اچھے لفظ نہیں بول سکتی تھی ۔
عروہ تم یہاں رہو ہم بات سن کر آتے ہیں ۔ایک لڑکی نے دوسری کو مخاطب کر کے کہا ۔
نہیں سر نے کہا ہے سب کو بلانا ہے ۔سہان جلدی سے بول اٹھا ۔
ٹھیک ہے پھر تب تک آپ یہاں رہیں ہماری چیزوں کا خیال رکیھیے گا ۔وہ سہان سے کہہ کر خود سب ایچ او ڈی کے پاس پہنچ گئیں اور پھر سہان نے اپنی دل و جان سے ان چیزوں کی حفاظت کی ۔
شیزل اور حذیفہ نے لڑکیوں کا جاتا دیکھا اور کلاس میں اپنی انٹری دی ۔پھر اس کے بعد کیا ہونا تھا سہان نے بریانی کی پلیٹس ایک شاپنگ بیگ میں ڈالیں ۔شیزل نے کیک پکڑا ۔اور حذیفہ نے کول ڈرنکس ۔اپنے اپنے بیگ میں چیزیں محفوظ کر کے سہان نے ایک صفحہ نکالا ۔
Biryani was delicious.... 😛😋
لکھ کر بینچ پر رکھا اور وہاں سے غائب ہو گئے ۔
*****************
اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچ کر ایزال، امایہ اور عزم کو بھی بلا لیا ۔اپنی کلاس کے میں بیٹھ کو سب نے پیٹ پوجا کی ۔
ویسے سہان تجھے کیسے پتا چلا تھا بریانی کا؟ ۔حذیفہ نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔سہان نے موبائل سے نگاہیں ہٹا کر ناگواری سے حذیفہ کو دیکھا ۔
آم کھانے سے مطلب رکھو گٹھلیاں گننے کا کام مجھ پر چھوڑ دے ۔سہان نے پھر سے موبائل کی طرف متوجہ کو کر کہا ۔وہ ایک ایک چیز کی تصویر بنا کر عرشمان کو سینڈ کر رہا تھا وٹس ایپ پر ۔آخر عرشمان کو پچھتانا چاہیے تھا اتنی بڑی پارٹی چھوڑنے پر ۔
یہ آم کا سیزن تو ہے ہی نہیں پھر آم کہاں سے آئے ۔ایزال نے سہان کو چیڑانے کو کہا ۔
ہاتھی کی ساتھی تمہارا آموں سے کیا لینا دینا اپنی سونڈ میں پانی بھر بھر کر کلیاں کرتی رہو بس ۔شیزل نے لقمہ دیا ۔
یخ کتنی گندی باتیں کرتے ہو تم لوگ یار ۔امایہ نے ناک سکوڑ کر کہا جیسے خود کو بہت مشکل سے قے کرنے روک رکھا ہو ۔
او میلی نازک پلی سار کچھ کھا ٹھونس کر اب ہم تمہیں گندے ہی لگیں گے نا مطلبی گھنی میسنی ہنہ ۔حذیفہ بھی کہاں برداشت کرنے والوں میں سے تھا ۔
*************
عرشمان کے موبائل کی نوٹیفیکیشن ٹیون مسلسل بج رہی تھی ۔اس نے موبائل جیب سے نکال کر دیکھا تو سہان کے طرف سے وٹس ایپ پر تیس تصویریں بھیجی گئی تھیں ۔اس نے وٹس ایپ آن کی ۔
ایک آدھی پلیٹ کی تصویر
ایک چکن کے پیس کی تصویر
ایک ہڈی کی تصویر
ایک چمچ کی تصویر
ایک خالی گلاس کی تصویر
ایک کال ڈرنک سے بھرے گلاس کی تصویر
ایک امایہ کی پلیٹ پر جھکی ہوئی بریانی کھاتی ہوئی کی تصویر
ایک شیزل کی ہڈی کو چوستے ہوئے کی تصویر
ایک ایزال کی منہ ٹیرھا کیے کال ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں پکڑے شراب پینے کی ایکٹنگ کرتی ہوئی کی تصویر
ایک حذیفہ کی منہ کھول کر قہقہہ لگاتے ہوئے کی تصویر
اور ایسی لاتعداد تصویریں
عرشمان نے محبت سے ان تصویروں کو دیکھا ۔پھر میسج ٹائپ کرنے لگا ۔
عزم کی تصویر نہیں ہے کیا تو ابھی تک اسے منا نہیں سکا؟ ۔
او ہیلو میری منگیتر مجھے ناراض نہیں ہوتی اچھا ۔فوراً جواب موصول ہوا ۔
اوہہہ تو پھر صبح کون منگیتروں کے نخروں پر مضمون سنا رہا تھا؟۔عرش نے مسکراتے ہوئے رپلائی دیا ۔
مجھے کیا پتا میری منگیتر ہو گا کوئی معصوم ۔
اہہم اہم ۔عرشمان نے مسکراتے ہوئے میسج سینڈ کیا ۔گیٹ سے نکلتے ہوئے اس کی مکمل توجہ موبائل پر مرکوز تھی ۔ایک زور دار تصادم سے اسکا موبائل دور جا گرا ۔وہ جو جلدی جلدی میں گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھی اس تصادم پر چکرا کر رہ گئی چاند، تارے، سورج سب کچھ ہی دن کی روشنی میں اسے نظر آ گیا تھا ۔
مس نظر کی عینک لگا کر کیوں نہیں چلتی آپ؟ ۔عرشمان نے ماتھے پر بل ڈالتے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔
کیوں کہ نظر کی عینک لگی ہی نہیں مجھے ۔بے نیازی سے جواب دے کر وہ آگے بڑھنے لگی ۔عرشمان نے برق رفتاری سے اس کے بازو کو اپنی گرفت میں لیا ۔
نہیں لگی تو لگوا لو تم جسی لڑکیوں کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں میں ایسے حربے کسی اور پر آزمانا جا کر عرشمان خان آفندی ان ٹکروں کے جال میں نہیں پھنسنے والا ۔وہ اس کو اپنی گرفت سے آزاد کر کے موبائل اٹھا کر جانے لگا ۔
اپنی یہ مردانہ طاقت کہیں اور دکھانا جا کر تم جیسے مردوں کی طرف تو میں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی یوں سر عام ایک عورت کی کردار کشی کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے اوہ لیکن شرم کو ہونا بھی تو ضروری ہے جو تم جیسے مردوں کے پاس ہوتی ہی نہیں ۔وہ زہر خند لہجے میں کہہ کر گیٹ عبور کر گئی ۔
وہ پہلی لڑکی تھی جس نے عرشمان خان آفندی کو ایک نظر دیکھا تک نہیں دیکھا اور وہ ہی پہلی لڑکی تھی جس کو عرشمان خان آفندی نے نظر بھر کر دیکھا تھا آنکھوں میں نفرت لیے زبان سے زہر اگلتے ہوئے اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا ۔لب بھینچ کر اس نے ایک زور دار ٹھوکر گاڑی کو ماری تھی ۔
**********
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top