Episode 11
Don't copy paste without my permission ❌❌❌❌
#o_mery_yar_tu_mera_pyar
#episode_11
#by_fariha_muzaffar
اب ڈھولکی رکھ تو لی تھی انہوں نے پر مسلہ یہ تھا کہ ڈھولکی بجائے گا کون؟ ۔حذیفہ کے کمرے کا حال دس منٹ میں ہی برا ہو چکا تھا ۔وہ آندھی طوفان کی طرح ہر چیز کو اس کی جگہ سے غائب کر چکے تھے ۔بیڈ شیٹ آدھی بیڈ پر تھی اور آدھی نیچے لٹک رہی تھی ۔تکیے سارے سہان نے اپنے پیچھے جمع کر لیے تھے شیزل کاؤچ پر لیٹا تھا ۔عرشمان بیڈ پر بیٹھا موبائل پر لگا ہوا تھا ۔جبکہ سہان تکیے سے ٹیک لگائے چھت کو گھور کر کسی گہری سوچ میں گم تھا ۔تبھی حذیفہ میکرونی کا باؤل پکڑے کمرے میں داخل ہوا ۔
آ جاؤ لڑکو ۔بیڈ کے درمیان میں باؤل رکھ کر اس نے سب کو مخاطب کیا ۔
یار ذیفی کسی لڑکے کا انتطام کر ۔سہان منہ بنا کر بولا ۔
کس لڑکے کا اور کس لیے؟ ۔حذیفہ نے حیران ہو کر پوچھا ۔
یار یہ ڈھولکی.... یہ نہیں بجانی آتی ہمیں ۔معصومیت کے سارے رکارڈ ہوئے سہان کے نام ۔
اچھا میں نمیر کو کال کرتا ہوں اس کے پاس ہر مسلے کا حل ہوتا ہے ۔وہ موبائل نکال کر نمبر ڈائل کرنے لگا ۔
یہ نمیر کون ہے؟ ۔شیزل نے فوراً سوالیہ نگاہیں اس کی طرف اٹھائیں ۔
وہ یونیورسٹی میں ہمارا جونیئر ہے جو نوٹس بھی لینے آیا تھا مجھ سے ۔اس نے تفصیل بتائی ۔
اچھا اچھا وہ نمیر.... ہاں تجھ سے نوٹس لینے کے بعد پھر وہ فیل ہو گیا تھا نا پیپرز میں یاد آ گیا یاد آ گیا ۔سہان دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بولا آنکھوں میں شریر سی چمک نمایاں تھی ۔
پاس ہوا تھا کمینے وہ بھی بہت اچھے جی پی اے کے ساتھ ۔ایک تکیہ زور سے سہان کے سر پر لگا ۔
تو رک زرا ۔سہان نے بھی بدلے میں تکیہ اس کے سر پر مارا اور پھر لاتعداد تکیے حذیفہ کے سر پر بم بن کر لگے۔اپنی جان بچانے کے لیے حذیفہ کو کمرے سے باہر بھاگنا پڑا تھا ۔
تو کب سدھرے گا؟ ۔عرشمان نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھتے ہویے تاسف سے سر ہلایا ۔
سہان عبداللّٰہ سدھر جائے یہ ہو نہیں سکتا
کیون کہ اسے سدھارنے والا ابھی تک کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ۔وہ شانِ بے نیازی سے کالر اٹھا کر اکڑ کر بولا ۔
تجھے سدھارنے والا نہیں سدھارنے والی پیدا ہوئی ہے ۔عرشمان نے گویا تصیح کی ۔
کون جانے وہ مجھے سدھارے گی یا خود بھی بگڑے ہوئے شہزادے کی بگڑی شہزادی بنے گی ۔کیا ٹشن تھے بھئی سہان کے ۔
قسم سے جو تیرے حالات ہیں نا مجھے تو لگتا ہے وہ جلد پاگل ہو جائے گی ۔شیزل نے میکرونی کا چمچ بھر کو منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔تبھی حذیفہ ایک لڑکے کو اپنے ساتھ لیے کمرے میں داخل ہوا ۔تینوں نے نظروں کا رخ دروازے کی جانب کیا ۔
یہ نمیر ہے اور نمیر یہ ۔ابھی حذیفہ نے بات شروع ہی کی تھی کہ سہان نے ہاتھ اٹھا کر بیڈ سے چھلانگ لگائی ۔
ہیلو نمیر میں اردو میں بولو تو سہان ہوں انگلش میں بولو تو بھی سہان ہوں، پشتو میں بولو تو بھی سہان ہوں، فرنچ میں بولو تو بھی سہان ہوں میں ہر زبان میں سہان ہوں میں سہان میں سہان ہوں ۔ہاتھ اس کے آگے کیے وہ چائنیز انداز میں زرا سا جھکے اپنا تعارف کروا رہا تھا ۔اور نمیر کا قہقہہ بے ساختہ تھا جبکہوہ تینوں اپنی ہنسی کو دبا رہے تھے ۔
اور میں نمیر خان ہوں ۔اس نے بھی مسکرا کر سہان کا ہاتھ تھام کر اپنا تعارف کروایا ۔
اوہ تو یقیناً تمہیں پشتو آتی ہو گی؟ کیا تم ایسے بولتے ہو میں کانا کاتی ہوں، جب بارش آئے تو موسم بوت سہانی او جاتی ہے؟ قسم سے یار پھر تو بڑا مزہ انے والا ہے یہ عرش تو خان کے نام پر دھبہ ہے دھبہ اس نے کبھی نہیں کہا کہ ام کو پشتو آتا ہے ۔وہ پرجوش ہو کر نان سٹاپ بولتا چلا جا رہا تھا جبکہ شیزل اور حذیفہ اب باقاعدہ اپنے پیٹ پکڑ کر ہنس رہے تھے ۔
بلکل ام کو پشتو آتا ہے ۔اس نے ہنستے ہوئے کہا اور عرشمان اور شیزل سے مصافحہ کیا سب نے میکرونی ختم کی اور ڈھولکی درمیان میں رکھ کر خوا دائرہ بنا کر بیٹھ گئے ۔شیزل چمچ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا ڈھولکی پر بجانے کے لیے ۔
نمیر ایک گھٹنا ڈھولکی پر رکھے اور دونوں ہاتھ ڈھولکی کی دونوں سائیڈز پر رکھے ڈھولکی بجانے لگا ۔
حذیفہ، عرشمان اور سہان تالیاں بجانے لگے ۔
جانم دیکھ لو یہ کیسی دوریاں..... سہان نے ہاتھ اٹھا کر لہرا لہرا کر اپنے سر کمرے میں بکیرنے شروع کیے ۔حذیفہ نے کھسیانا سا ہو کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔
جانم دیکھ لو.... گردن نکال کر اونچی اونچی آواز میں گانے لگا کسی طرح اشوہ تک حذیفہ کے دل کی آواز پہنچانی تھی اسے ۔
جانم
جانم
جانم
ابے آگے بھی گا کچھ ۔شیزل نے ایک زور دار تھپڑ اس کی کمر پر مارا تو وہ ہوش میں آیا ۔
اب نمیر پشتو میں کچھ سنائے گا ۔سہان توپ کا رخ نمیر کی جانب کیا تو وہ کندھے اچکا کر رہ گیا ۔
دھولکی کی تال پر اس نے گانا شروع کیا.
دسترگے جادوگرے دی
(یہ انکھیں جادوگر ہیں)
دا مینا لاوینائی دا
(یہ پیار پاگل پن ہے)
آنکھوں کے سامنا ایک سراپا آیا اور ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے حوالے کر گیا ۔
جاناں جاناں
(پیاری، پیاری)
اس کی آواز کسی ساحر سے کم نہیں تھی سب نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا ۔
واہ تم ایک اچھے سنگر بن سکتے ہو۔حذیفہ نے اس کا کندھا تھپتھپا کر کہا ۔اس نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا تھا ۔
تم لوگ کنٹینیو کرو میں چائے کا بول کر آتا ہوں ۔حذیفہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا ۔
ابھی تیرا پیٹ نہیں بھرا چائے کی گنجائش بچتی ہے؟ ۔عرشمان نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔
یو نو انسانوں کے دو معدے ہوتے ہیں ایک کھانے کے لیے اور دوسرا چائے کے لیے کھانا جتنا مرضی کھا لو چائے والا تب تک خالی ہی رہتا ہے جب تک چائے پی نا لو ۔وہ اپنا فلسفہ جھاڑ کر کچن کی جانب چلا گیا ۔جبکہ باقی اپنے کام میں مصروف ہو گئے ۔نمیر مسلسل ڈھولکی پیٹ رہا تھا ۔سہان نے اٹھ کر حذیفہ کی وارڈروب کھنگالنا شروع کر دی۔سب نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا ۔
کیا ڈھونڈ رہے ہو افلاطون؟ ۔شیزل نے پوچھا ۔
یار یہ حذیفہ کسی کام کا نہیں ہے کوئی ایک دوپٹہ بھی اس نے اپنی وارڈروب میں نہیں رکھا ہوا ۔وہ مایوسی سے بولا ۔
ہم جانتے ہیں تو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا لیکن ہم تیری گھسی پٹی شکل دیکھ کر گزارا کر لیں گے اس لیے تجھے دوپٹہ لے کر منہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ۔شیزل نے موقعے پر چوکہ مارنے میں بلکل دیر نہیں کی ۔
شکل اچھی نا ہو تو بندہ بات ہی اچھی کر لیتا ہے لیکن تجھ سے تو امید لگانا ہی بیکار ہے شیزل غدار ۔وہ ناک سکوڑ کر بولا ایک دم ہی اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی ۔وارڈروب کے سب سے نچلے حصے میں پڑی بیڈ شیٹس کو کھینچ کھانچ کر اس نے باہر نکالا ۔اسے اس کی مطلوبہ چیز مل گئی تھی اب وہ ندیدوں والی نظریں لے کر ان سب کی طرف دیکھ رہا تھا ۔عرشمان نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دیے تھے کہ وہ اس کام میں بلکل حصہ دار نہیں بنے گا ۔
***************
جاری ہے......
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top