ہمیں زندہ تو رہنا ہے، اگرچہ درد سہنا ہے

ہمیں زندہ تو رہنا ہے
اگرچہ درد سہنا ہے
مگر زندہ تو رہنا ہے....
ہزاروں خواہشیں مردہ
کروڑوں حسرتیں جل کر
ہوئی ہیں راکھ اس دل میں
دعائیں مل کے اشکوں میں
عمل رائیگاں بن کر
خلا میں سر پٹکتی اور
زمیں پہ آ ٹپکتی ہیں
وہیں پہ سوکھ جاتی ہیں...
لب خاموش کی اجرت
ہلک میں ضبط کی دیمک
یوں خستہ ہے زباں جیسے
کہ اک بھی لفظ بولا تو
بجائے لفظ کے منہ سے
یہ سوکھی ریت کی مانند
سرک جائیگی اسطرح
کہ جیسے ریت مٹھی سے
سرکتی ہے، بکھرتی ہے
ہوا میں ڈوب جاتی ہے...
نظرئیے کفر و ایماں کے
بطن کی تابکاری سے
اگر ٹکرا جائیں، یکسر
تفاوت ٹوٹ جاتے ہیں
مذاہب روٹھ جاتے ہیں
جو بھی کہتی ھے کم دلی
یہی سنتی ہے زندگی
کہ چاھے کچھ بھی ھو جائے
ہمیں زندہ تو رہنا ہے
اگرچہ درد سہنا ہے
مگر زندہ تو رہنا ہے
کہ بس! زندہ ہی رہنا ہے...

(دوش)

Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top