آئے ہائے کدھر پھنس گئے
"ٹوینکل ٹوینکل لِٹل مشال
ہاؤ آئی ونڈر واٹ یو آر
اپ ابوو دا کچنز کبرڈ سو ہائی
لائک آ کرو کرے کایں کایں "
ہاہاہا ۔۔۔ فیض نے اپنی بھولی بھالی بہن مشال کو پہلے اُلو بنایا کے چاکلیٹ کچن کی الماری کے اوپر پڑی ہے پھر اسے الماری کے اوپر چڑھنے میں مدد بھی کی اور اسکی ہونسلہ افزائی بھی کی ۔پھر جب وہ اوپر چڑھ گئی تو نہ چاکلیٹ کا ڈبّہ موجود تھا نہ کوئی اسے نیچے اُتارنے والا۔
اب وہ الماری کے اوپر بیٹھی رو رہی تھی اور فیض نیچے کھڑا اُسکا مذاق اڑا رہا تھا ۔
"کیا بدتمیزی ہے فیض "؟ امی کی آواز پر وہ چونکا ۔"ہیں امی لوگ اتنی جلدی اسٹیشن سے واپس آگئے "اُسنے پلٹ کر دیکھا ۔
امی کے ساتھ ابو ابراہیم مامو اُنکا شراتی بیٹا اُسکا منحوس شکل والا بلہ اور ممانی بھی ہونق بنے کھڑے تھے۔
وہ یقیناً کچن کی الماری کے اوپر بیٹھی روتی بلکتی مشال کو دیکھ کر شاک میں تھے۔
"اا۔۔امی جان !وہ نا۔۔۔۔"
"امیییییی"فیض کی بات ادھُوری رہ گئی مشال نے زور زور سے رونا شروع کردیا ۔امی نے فیض کا کان مروڑا اور پھر مشال کو نیچے اُتارا ،وہ دُبلی پتلی کمزور سی بچی تھی جسکی عمر سات آٹھ سال کے درمیان تھی گول انکھیں چھوٹی چھوٹی جنپے نظر کا چشمہ چڑھایا ہوا تھا ۔سفید گلابی مائل رنگت اور ہلکے بھورے گھنگرالے بال تن پر ٹریک سوٹ تھا ۔چشمے کے پار وہ چھوٹی آنکھیں جنمے خوف تھا جیسے وہ تنہا ہو بلکل تنہا اُسنے ایک نظر زويار کو دیکھا جو اُسے بغور دیکھ رہا تھا اور پھر سسکیاں لیکر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
"تم چاہے جتنی بھی حسین ہو میری روزی سے زیادہ حسین کبھی نہیں لگ سکتی ۔"شیرو نے اسے دیکھ کر منہ بنایا۔
"اچھا ایسا کیا ہے اس روزی میں جو تمہیں راولپنڈی کی "دا کیٹی پو "بھی اُسکے اگے کچھ نہیں لگ رہی ہے ۔سارے" پنڈی کیٹس"میری لُک کے فین ہیں"اس بلوڑی آنکھوں والی دبلی پتلی اور سلیٹی رنگ کی بلی نے اترا کر کہا۔
"ہاہاہا ۔۔خوش فہم ہیں آپ بی بی "شیرو تمسخرانا ہنسا
"ہنہ سلّی بلّی "شیرو آنکھیں گھما کر وہاں سے چلا گیا ۔
دا کیٹی پو اسے جاتا دیکھتی رہی اور پھر "واٹ ایور "وہ کندھے اچکا کر وہاں سے چلی گئی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
"دیکھو فیض تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا "زويار نے افسوس سے سر جھٹک کر فیض کی طرف دیکھا ۔
فیض نے نا سمجھی سے زويار کا چہرہ دیکھا جو پرسوچ انداز میں بیٹھا تھا۔
"تمھیں نا ٹریننگ دینی پڑے گی ابھی تم بچے ہو ۔اصل میں تمہیں اسے یہ کہنا چاہئے تھا کہ چاکلیٹس اسٹور روم والی الماری میں ہیں تاکہ جب وہ اوپر چڑھ جاتی تو اسٹور روم لاک کر کے وہاں سے بھاگ جاتے اس طرح تم بچ جاتے اور شاید پھپو کے ہاتھوں تمہاری اچھی خاصی چھترول بھی نہ ہوتی" زویار بہت ہی ہمدردی سے کہہ رہا تھا ۔
فیض کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں ۔وہ لڑکا اسے کیا بتا رہا تھا کیا سمجھا رہا تھا وہ کیا چیز تھا ؟
"تو فیض شاہ آئندہ کوئی بھی اُلٹا کام کرنے سے پہلے مجھ سے مفت مشورہ لے لینا " زويار نے شرارت سے ایک آنکھ دبائی۔
اگلے ہی لمحے فیض کو احساس ہوا کہ زويار ابراہیم بہت کام کی چیز ہے اُسنے اُسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
شیرو یہ سب راہ داری میں بیٹھا دیکھ رہا تھا انکی دوستی دیکھ کر اسکو حول اٹھنے لگے یعنی ایک نہ شُد دو شُد وہ ٹھندی اہ بھر کہ رہ گیا۔۔۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
"فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا " زويار نے فیض کا کندھا تھپتھپایا وہ لوگ پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے جب فیض کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر زويار نے اسے تسلی دی ۔
"کیا یار امی نے تم سب کے سامنے مجھے اتنا ڈانٹا مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا" فیض نے افسوس سے سر جھٹکا
"اوہو یہ تو ہوتا رہتا ہے اب تو،تو اسکی عادت ڈال لے فیض اب تو یہ سب روز ہوگا "زويار کی بات پر فیض نے رخ موڑ کر حیرت سے اسکی طرف دیکھا جو بہت پرسکون دکھائی دیتا تھا۔
"کیوں ۔۔۔؟اب ایسا کیا ہوا بھلا"؟ فیض نے معصومیت سے پوچھا
"اب وہ کچھ ہوگا فیض میاں کے تمہیں نانی جی یاد آجائیں گی " شیرو نے سوچا ۔
جبکہ زويار نے کوئی جواب دینے کی بجائے بس ہنس کر کندھے اُچکا دیئے۔(جاری ہے)
Bạn đang đọc truyện trên: AzTruyen.Top